دیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اگر تم چاہو تو صبر کرو، [اس کا بدلہ]تیرے لیے جنت ہے ؛اور اگر تو چاہتی ہے تو تیرے لیے دعا کر دیتا ہوں کہ تو تندرست ہوجائے۔‘‘
اس نے عرض کیا کہ:’’ میں صبر کروں گی۔‘‘
پھر کہا:’’ اس میں میرا ستر کھل جاتا ہے، اس لیے آپ دعا کریں کہ ستر نہ کھلنے پائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق دعا فرمائی۔ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے روایت کیا ہے :حضرت عطا رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:
’’ میں نے ام زفر کو کعبہ کے پردوں کے پاس دیکھا جو طویل (قد)اور سیاہ (رنگ) تھی۔‘‘ [صحیح بخاری:ج3:ح 630]
۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے قصہ میں ہے کہ سراقہ بن مالک آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کے پیچھے لگ گئے؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بد دعا کی ؛ جس کی وجہ سے اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنسنے لگ گئے۔
حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے والد کے گھر میں تشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا پھر عازب یعنی میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے (برا) کو میرے ساتھ بھیج دیں تاکہ وہ اس کجاوہ کو اٹھا کر میرے گھر لے چلے ۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اسے اٹھا لے۔ تو میں نے یہ کجاوہ اٹھا لیا؛ اور میرے والد بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس کجاوے کی قیمت وصول کرنے کے لیے چل نکلے۔
میرے والدنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کی: اے ابوبکر! مجھ سے بیان فرمائیں کہ جس رات تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے (یعنی تم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا جو سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے اس کی کیفیت بیان کیجئے)
|