اورہم نے زمین کو قرار بخشا ہے تاکہ وہ لوگوں کو لیے حرکت میں نہ آجائے اور وہ اس کی پشت پر ثابت قدم رہیں۔
جب کہ طبیعات کے سائنس دان اپنی نئی تحقیقات کی روشنی میں ایک نئے نتیجہ تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ان پہاڑوں کاایک بہت بڑا حصہ زمین کے اندر ہے۔ اور کبھی یہ حصہ پہاڑ کا دو تہائی ہوتا ہے۔اوران کا کام روئے زمین کو جو کہ اس کا بالائی طبقہ ہے؛ حرکت کرنے سے روک کر رکھے۔‘‘
زمین کی کئی ایک تہیں [طبقات] ہیں۔
ان میں سب سے بالائی تہہ وہ سخت حصہ ہے جس نے زمین کوگھیر رکھا ہے۔ اس کے نیچے ایک اور گارے والی تہہ ہے۔ اس کے نیچے ایک مائع تہہ ہے۔ پھر اس کے نیچے بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔
روئے زمین کا یہ ظاہری حصہ کئی بر اعظموں میں تقسیم ہے۔ جو کہ اس گارے والے لیس دار حصہ کے اوپر واقع ہے۔ اور پہاڑوں نے اس گارے والے مادے کے اوپر زمین کو قرار بخشا ہواہے۔اور پہاڑ اس سطح ارضی کے مادہ میں داخل ہیں ؛ اور ان کا ایک حصہ زمین کے اندر اس گوندھے ہوئے مادہ کی گہرائی تک جاتا ہے۔ ان علوم کا انکشاف عصر حاضر کے ماہرین ارضیات نے کیا ہے۔ پس اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن میں دی جانے والی معلومات کسی بشر کا کلام نہیں بلکہ بشریت کے خالق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کلام ہے۔‘‘
اس کی مزید تائید آج کل کے ان سائنس دانوں کے کلام سے بھی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ: یہ کرہ ارضی جس پر ہم رہتے ہیں؛ جو کہ مختلف براعظموں میں تقسیم شدہ ہے؛اسے مختلف چیزوں نے گھیر کر رکھا ہوا ہے۔ کہیں تو بلند و بالا پہاڑ ہیں اور پھر کہیں پر گہری وادیاں۔ کہیں پر نرم اور سر سبز سر زمین ہے تو کہیں پر سخت صحراء؛اور یہ تمام آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔
اور کرہ ارضی کا بالائی حصہ اس سیال حصہ کی نسبت سخت ہے جو اس کے نیچے موجود ہے۔
|