Maktaba Wahhabi

185 - 277
قول کی طرف بھی اشارہ کیا ہے؛ اور پھر اس اختلاف میں راجح قول بھی بیان کیا ہے۔ فرمایا: ’’دھواں جو ایندھن سے شعلے بھڑکنے کے وقت اٹھتا ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: { وَہِیَ دُخَانٌ } [فصلت 11]’’اور وہ دھواں تھا۔‘‘ اس میں ایک انتہائی بلیغ تشبیہ ہے۔ یعنی وہ دھویں کی طرح تھا۔ حدیث میں وارد ہواہے کہ ایک اندھیرا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: یہاں پردھویں سے مراد ایک اندھیری چیز ہے۔ یہ قول ’’سفر تکوین ‘‘ میں وارد قول کے مطابق ہے؛ اس میں ہے: ’’ایک اندھیر چادر کے اوپر۔‘‘ یہ قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بہت دور ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: ’’مخلوقات میں ایک عماء کے علاوہ کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا۔ عماء: سے مراد یہاں پر انتہائی باریک بادل ہیں یہی انتہائی باریک و ملائم رطوبت ۔ یہ اس اصلی عنصر کے قریب ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے موجودات کو پیدا کیا ہے۔ اور یہی اس بات سے بھی مناسبت رکھتا ہے کہ زمین سے پہلے آسمان کو پیدا کردیا گیا تھا ۔ پس اس کا معنی یہ ہوا کہ : { وَہِیَ دُخَانٌ } [فصلت 11]’’اور وہ دھواں تھا۔‘‘ آسمان کی اصل وہ چیز ہے جو دھویں سے مشابہ تھی۔ یعنی آسمان کی تکوین و تخلیق اس دھویں دار چیز سے عمل میں آئی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ: میں کھجور کی طرف متوجہ ہوا جو کہ پہلے ایک کھٹلی تھی۔ پھر میں نے اس کے زرخیز زمین کا انتخاب کیا۔‘‘ پس اس بنا پر آسمان کا تخلیقی مادہ زمین کی تخلیق سے پہلے موجود تھا۔‘‘ [التحریر و التنویر24؍246] علامہ ابن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول موجودہ دور کے سائنس دانوں کے اقوال کے قریب ترین اقوال میں سے ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تخلیق کیسے عمل میں آئی؟ تو قرآن کریم نے ذکر کیا ہے کہ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے ؛ پھر اللہ
Flag Counter