حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کینبی صلی اللہ علیہ وسلم !وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کرلیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہوجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے؟
میں نے عرض کیا: نہیں! اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے ہے۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں۔ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کریں۔ وہ اس کی گردن اڑائیں اور فلاں آدمی میرے سپرد کر دیں۔ اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں۔‘‘
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے۔جب آئندہ روز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے؛ میں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیں تو سہی کس چیزنے آپ کو اورآپ کے دوست کو رلا دیا؟
پس اگر رو سکا تو میں بھی رؤوں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا۔ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی
|