کے نزدیک اس سے مقصود قرآن کریم ہے جبکہ سالم بن ابی الجعد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اللہ کی رضا کیلئے محبت کرنا اور اسی کی رضا کی خاطر بغض رکھنا ہے ... یہ تمام اقوال درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔‘‘[تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۹] اور اللہ رب العزت کافرمان ہے: ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾[النساء:۶۵] ترجمہ:’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تنازعات میں آپ کو حَکَم(فیصلہ کرنے والا)تسلیم نہ کر لیں۔پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق یہ اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔’‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ظاہری وباطنی ایمان تین امور کے ساتھ حاصل ہوتا ہے: 1. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حَکَم(فیصلہ کرنے والا)تسلیم کرنا یعنی آپ کی حیات میں آپ کی ذات کو اور آپ کے انتقال کے بعد آپ کی شریعت کو فیصلہ کرنے والا ماننا۔ 2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور آپ کی شریعت کے بارے میں دل میں کوئی گھٹن محسوس نہ کرنا اور اسے کھلے دل سے قبول کرنا۔ 3. اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے سامنے جھکا دینا۔ اس آیت مبارکہ کی مزید تفسیر درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے: حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی کے درمیان حرہ میں واقع پانی کی ایک نالی پر جھگڑا ہو گیا جس کے |