ہیں کہ انہی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتے ہیں اور انہی کو رازق اور داتا تصور کرتے ہیں انھیں دل میں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ یہ بت اور اسی طرح یہ بزرگان دین کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کسی طرح کا تصرف کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت ہے لیکن ان کے دلوں میں ایک وہم پایا جاتا ہے۔اور قرآن مجید ان کے اسی وہم کو جڑ سے نکال پھینکنا چاہتا ہے تاکہ عقیدۂ توحید ہر قسم کے شبہات سے پاک ہو جائے۔ان کے دلوں میں وہم یہ ہے کہ وہ ان اولیاء کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔بالفاظ دیگر وہ گویا یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حال سے واقف نہیں ہے۔لہذا وہ اپنے بزرگوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کا حال اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیں۔ یا پھر وہ(اپنے گناہوں کی بناء پر)اللہ تعالیٰ سے اتنے خائف ہوتے ہیں کہ وہ خود براہِ راست اللہ تعالیٰ سے معافی نہیں مانگ سکتے اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پناہ طلب کرسکتے ہیں۔لہذا وہ اپنے اولیاء سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائیں۔ یا پھر وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحیم نہیں ہے۔لہذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے اور اللہ کے درمیان کوئی ایسا واسطہ ضرور ہو جو انھیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردے۔ یہ سب اعتقادات بالکل باطل ہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ایسے اعتقادات رکھنے سے ناراض ہوتا ہے اور وہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس کے اور اس کے بندوں کے درمیان بالکل کوئی واسطہ نہ ہو۔ نہ دعا میں،نہ خوف میں اور نہ امید میں۔اور وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے براہِ راست اسے پکاریں کیونکہ وہ ان کے انتہائی قریب ہے:﴿وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ﴾[البقرۃ:۱۶۸] ترجمہ:’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو(کہئے)میں |