Maktaba Wahhabi

204 - 276
نے فرمایا: ((إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ)) ’’بے شک صدقہ (زکاۃ) آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے حلال نہیں۔‘‘[1] ( تالیف قلبی کے لیے: اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے قبیلوں کے فرمانروا ہوں اور ان کے اسلام لانے کی امید ہو یا وہ مسلمان تو ہوں لیکن ان کے ایمان کو مزید تقویت دینا یا ان کی وجہ سے کسی دوسرے فرمانروا کا اسلام قبول کرنا مقصود ہو یا کم از کم اس کی شر انگیزیوں سے مسلمانوں کو محفوط رکھنا مراد ہو تو تب بھی انھیں زکاۃ دی جا سکتی ہے اور ایسے لوگوں کا زکاۃ میں حصہ منسوخ نہیں ہوا بلکہ یہ حصہ باقی ہے اور انھیں زکاۃ میں سے اس قدر مال دیا جا سکتا ہے جس سے ان کی تالیف قلب اور اسلام کی نصرت و دفاع ہو سکے۔ چنانچہ زکاۃ کا کچھ حصہ (نصرت دین کے لیے) کافروں کو بھی دیا جا سکتا ہے،جیسا کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ ِحنین سے ملنے والے مال غنیمت میں سے صفوان بن امیہ کو اس میں سے کچھ حصہ دیا۔ [2] اسی طرح اس مد سے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے،جیسا کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب،اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن کو سو سو اونٹ دیے تھے۔ [3] ( گردنیں آزاد کرنے کے لیے: جس میں غلام آزاد کرنا،مکاتب[4] کی مدد کرنا اور دشمن کی قید سے جنگی قیدیوں کو رہا کرانا شامل ہے۔ کیونکہ یہ عمل کسی قرضدار کا قرض اتارنے
Flag Counter