سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب وحی کرنا چاہتا ہے تو اُس وحی کے ذریعہ سے کلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی آواز سنتے ہی تمام آسمانوں پر اللہ کے خوف سے کپکپی اور دہشت طاری ہو جاتی ہے۔پھر جب اسے آسمان والے سنتے ہیں تو بیہوش ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں پس سب سے پہلے جبریل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے گفتگو فرماتا ہے۔جس آسمان سے جبریل علیہ السلام فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ دریافت کرتے ہیں کہ ہمارے رب تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ جبریل علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ حق ہی فرمایا ہے اور وہی صاحب علو(بلندی و بڑائی)ہے۔ یہ حدیث منکرین کلام الٰہی(یعنی اللہ تعالیٰ کو کلام کرنے والا نہ ماننے والوں)پر اہل سنت کی طرف سے دلیل اور برہانِ قاطع ہے۔حدیث کے الفاظ یہ ہیں:لَمْ یَزَلِ اللّٰه مُتَکَلِّمًا اِذَا شَآئَ ’’اللہ تعالیٰ ازل سے صفت ِ کلام سے متصف رہا ہے،اُس نے جب چاہا تکلم فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ آسمان اللہ کے کلام کو سنتے ہیں،اس سلسلے میں ابن ابی حاتم نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی ہے وہ منکرین کے عقائدِ باطلہ پر ایک ضرب کی حیثیت رکھتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:(ترجمہ)’’جب اللہ تعالیٰ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے آسمانوں،زمینوں اور پہاڑوں پر ایک زلزلہ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور تمام فرشتے سجدہ میں گر جاتے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی سے یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں احساس اور معرفت کا ملکہ پیدا کر دیا ہے،تبھی تو وہ اللہ تعالیٰ سے خوف کھاتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ عظیم مخلوق بھی اس کی تسبیح و تہلیل کہتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(ترجمہ)’’ساتوں آسمان اور زمینیں اور اُن کے رہنے والے سب اسی کی تسبیح بیان کرتے ہیں،اور کوئی چیز نہیں مگر اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم اُن کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔بیشک وہ بردبار(اور)غفار ہے۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل:۴۴)۔ مسند امام احمد میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک صحیح روایت یوں منقول ہے:(ترجمہ)’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو اُس کی اپنی صورت میں دیکھا کہ اُس کے پر چھ سو تھے اور ہر ایک پر آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا(خوف اور ڈر کی وجہ سے)اُس کے پیروں سے موتی اور یاقوت گر رہے تھے جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ اس حدیث پر غور کیجئے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مخلوق اتنی بڑی ہو سکتی ہے تو اُس خالق کائنات کی عظمت، |