ہوں گے اور فوراً شفاعت نہیں کریں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے، اُس کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو گا کہ اپنا سر مبارک اٹھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنا جائے گا اور جو سوال کرو گے وہ دیا جائے گا اور سفارش کیجئے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
((مَنْ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ؟۔قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰهُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ۔))[1]
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ کون خوش نصیب شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہو گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دل کی گہراہیوں سے کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰه کا اقرار کرے۔‘‘
پس ثابت ہوا کہ یہ شفاعت اُن کو حاصل ہو گی جو اپنے اعمال و افعال میں مخلص ہوں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے، لیکن مشرکین کی شفاعت ہرگز نہ ہو سکے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا اُن کی دُعا کی وجہ سے اہل اخلاص پر اپنا خاص فضل و کرم کرتے ہوئے معاف فرما دے گا؛ تاکہ اُن کی عزت و تکریم ہو اور وہ قابل تعریف مقام حاصل کر لیں۔ پس قرآن کریم نے جس شفاعت کی تردید کی ہے وہ ایسی شفاعت ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر شفاعت کو اپنی اجازت سے ثابت اور مقید کر دیا ہے۔ اور یہ شفاعت صرف موحدین اور سچی توحید والوں کے لئے ہو گی‘‘[2]
|