Maktaba Wahhabi

164 - 440
والا ہوں‘‘ کہ اس آواز کو دور والے بھی ویسے ہی سنیں گے جس طرح یہ قریب والوں کو سنائی دے گی۔‘‘ تشریح…: (۱) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی باتیں انفرادی اعتبار سے نئی وجود میں آتی ہیں اور وہ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ یہ کلام اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پیدا فرمائیں گے اور یہ آواز کے ساتھ ہوگا۔ مزید برآں ’’یَسْمَعَہُ مَنْ قَرُبَ وَمَن بَعُد‘‘ کے الفاظ سے مجاز کی نفی ہوتی ہے۔ یہی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام حقیقی، آواز کے ساتھ اور سنا جانے والا ہوگا۔ یہ کلام حشر کے دن اس وقت اللہ تعالیٰ کریں گے جب وہ تمام مخلوقات کو جمع کریں گے اور بآواز بلند پکاریں گے ’’میں ہی بادشاہ ہوں، میں ہی بدلہ دینے والا ہوں۔‘‘ کیا اس وضاحت اور تفصیل کے بعد بھی کسی وضاحت و تفصیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی طور پر اور جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام نیا وجود میں آتا ہے۔ جب بھی وہ کوئی حکم دیتا ہے، یا کسی کام سے روکتا ہے۔ تخلیق کرتا اور رزق دیتا ہے تو یہ سب کام کلام کے ذریعے کرتا ہے۔ ﴿اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ،﴾ (یٰس:۸۲) ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے؛ ’’ہو جا‘‘۔ تو وہ ہو جاتی ہے۔ ‘‘ ***** وَفِیْ بَعْضِ الْآثَارِ: أَنَّ مُوْسٰی علیہ السلام لَیْلَۃً رَأَی النّارَ فَہَالَتْہُ وَفَزِعَ مِنْہَا، نَادَاہُ رَبُّہُ: یَا مُوْسٰی۔ فَأَجَابَ سَرِیْعًا اِسْتِئْنَاساً بِالصَّوْتِ۔ فَقَالَ: لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ أَسْمَعُ صَوْتَکَ، وَلَا أَرَی مَکَانَکَ، فَأَیْنَ أنْتَ؟ فَقَالَ: أَنَا فَوْقَکَ، وَوَرَائَ کَ، وَعَنْ یَمِیْنِکَ، وَعَنْ شِمَالِکَ۔ فَعَلِمَ أَنَّ ہٰذِہٖ صِفَۃٌ لَا تَنْبَغِیْ إِلَّا لِلّٰہِ تَعَالٰی، قَالَ: کَذٰلِکَ أَنْتَ یَا إِلٰہِيْ فَکَلَامُکَ أَسْمَعُ أَمْ کَلَامَ رَسُوْلِکَ؟ قَالَ: بَلْ
Flag Counter