Maktaba Wahhabi

47 - 47
مشترکہ کھاتہ(کمپنی): ٭ امام ابوحنیفہ ؒ و امام مالکؒ: کسی پر زکوٰۃ اس وقت تک واجب نہیں ہے جب تک ان میں سے ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب نہ ہو۔ ٭ امام شافعیؒ:مشترک مال کا حکم ایک ہی شخص کے مال کا ہے۔ ٭ وجۂ اختلاف:نبی ﷺ کے ارشاد: ’’پانچ اوقیہ(۵۰=۵۲تولہ)سے کم چاندی پر زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ سے یہ واضح نہیں کہ آیا یہ حکم صرف اس وقت ہے،جبکہ مال صرف ایک ہی شخص کی ملکیّت ہو،یا اس وقت بھی ہے جبکہ کئی شریک ہوں۔بعض آئمہ پہلی صورت پر اور بعض دوسری پر متفق ہیں۔اور دوسری ہی صحیح ہے،کیونکہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:’’زکوٰۃ کے ڈر سے نہ متفرّق مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھے کو الگ الگ۔‘‘(صحیح بخاری) اموالِ زکوٰۃ(جن پر زکوٰۃ فرض ہے): ۱۔سونااور چاندی(نقدی) ۲۔مالِ تجارت ۳۔زرعی پیداوار ۴۔مویشی ۵۔کان اور دبے ہوئے خزانے وہ اشیاء جن پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے: ذاتی استعمال کی اشیاء،ذاتی مکان یا مکان کی تعمیر کیلئے پلاٹ،ذاتی استعمال کی اشیاء(مثلاً کار،فرنیچر،فرج،حفاظتی ہتھیار یا مویشی خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں)پرزکوٰۃ نہیں۔ (۱)سونا: ساڑھے سات(۵۰۔۷)تولے سے زیادہ ہو تو چالیسواں حصہ یعنی ۵۰۔۲% زکوٰۃ ہے۔جبکہ ملکیّت میں ایک سال گزر جائے۔اصل اعتبار وزن کا ہوگا،قیمت کا نہیں۔
Flag Counter