Maktaba Wahhabi

32 - 37
ہے،پس تمام امت کیلئے اپنی عبادات کا طریقہ ایجاد کرنا یا کسی عام حکم کی تخصیص کرنا کسی بھی امتی کے لیے جائز نہیں ہے۔ پس مردوعورت کے لیے طریقۂ عبادت صرف وہی قابلِ قبول ہوگا جس پر قرآن وسنّت سے کوئی دلیل ہو اورجہاں پر دلیل نہ ہو وہاں کوئی فرق قابلِ قبول نہیں ہے۔ احناف: اگر یہ احادیث آپ کے نزدیک ضیعف ہیں تو اِنھیں ضعیف ثابت کرنے کے دوطریقے ہیں : یاتو قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا کسی امام کا قول:تقلید اور غیرِ رسول کا قول تو آپ کے نزدیک معتبر نہیں اس لیے پہلی صورت آپ کے نزدیک معتبر ہوئی،لہٰذا ان حدیثوں کے ضعف کے لیے صریح صحیح، چلیے ضعیف حدیث ہی لے آیئے۔ اہلِ حدیث: محترم!گزارش یہ ہے کہ احادیث کاضعف اور صحت اُن کی سند پر مبنی ہے۔اگر کسی کی سند نہ ہو تو وہ حدیث بے بنیاد ہوگی، کیونکہ حدیث اس وقت تک بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا چاہیے جب اس کی مکمل تحقیق ہو جائے کہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے ۔پھر اسے کس نے ہم تک پہنچایا ہے؟ اس نے کس سے سنی تھی،جب تک یہ سلسلہ آخرتک نہ پہنچ جائے اس وقت تک تحقیق مکمل نہیں ۔پھر پہنچانے والوں کی تحقیق کرنی چاہیے کہ یہ سچے تھے یا جھوٹے؟دیندار تھے یا بے دین؟بات یادرکھنے والے تھے یا بھولنے والے؟ قرآن کی تعلیم بھی یہی ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی خبر پہنچے تو اس کی تحقیق کرلو۔[1] اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
Flag Counter