Maktaba Wahhabi

364 - 246
ہے، نہ کہ اختیاری ذبیحہ کا۔ ظاہر ہےکہ اگرتازہ پھل دستیاب ہوتو ایک انسان گلاسٹرا پھل کیوں کھائے گا؟ اسی وقت کھانے پرمجبور ہوگا جب بھوک سے بےتاب ہواورصرف گلاسڑا پھل ہی موجود ہو، اس لیے اس قسم کےذبیحہ کوہم بالکل حرام تونہیں کہہ سکتے لیکن اتنا ضرور کہیں گےکہ جہاں حلال گوشت دستیاب ہو، وہ بھی نہ ہوتو’’ کوشر‘‘موجود ہوتوپھر مشینی ذبیحہ کیوں کھایا جائے؟ بعض لوگ یہ استدلال بھی کرتےہیں کہ جب قرآن نےاہل کتاب کاذبیحہ جائز رکھا ہے توآپ یہ شرطیں کیوں لگاتےہیں؟ اس کاجواب یہ ہےکہ اہل کتاب کاذبیحہ صرف اسی لیے جائز رکھا گیاہے کہ وہ ایک کتاب(تورات) کےحامل ہیں،جس میں انہیں ذبح کرنےکاطریقہ بتادیاگیاہے۔ ہم مسلمان بھی تواہل قرآن ہونے کی بنا پرایک مسلمان کاذبیحہ کھاتےہیں کہ قرآن میں ذبیحہ کی لازمی شرط بتادی گئی ہے۔ اب اگر مسلمان یاعیسائی اپنی کتاب میں دی گئی شرائط کوملحوظ نہ رکھے تووہ کتاب کےہوتےہوئے بھی جاہل قرار دیا جائے گااور اسی لیے اس کا ذبیحہ جائز متصورنہ ہوگا۔ ہم پہلے ہی کہہ چکےہیں کہ اہل کتاب میں سے یہود نےکتاب کی شروط ملحوظ رکھیں توان کاذبیحہ جائز قرارپایا اورعیسائیوں نےان شروط کوپس پشت ڈال دیا،اس لیے ان کا ذبیحہ جائز نہ رہا۔ ہرنوکری میں حرام کی آمیزش ہوتو آدمی کیاکرے؟ سوال: میں کام کی تلاش میں ہوں لیکن ہرملازمت میں کچھ نہ کچھ حرام کی آمیزش ہےتوکیا خالی بیٹھارہوں،جب تک کہ مجھے خالص حلال ملازمت نہ مل جائے؟
Flag Counter