Maktaba Wahhabi

359 - 348
446۔اس مال کا حکم جس میں سود کی ملاوٹ ہو۔ مال وارث کے لیے حلال ہے، اگرچہ مرنے والےنے حرام طریقہ سے ہی کمایا ہو، ہاں اگر معلوم ہو جائے کہ یہ فلاں کا مسروقہ مال ہے، یا فلاں سے غصب شدہ ہے تو پھر حلال نہیں بلکہ اصل مالک تک پہنچانا واجب ہے، میت کو بری الذمہ کرنے کے لیے اور مال کو باطل طریقہ سے حاصل کرنے سے بچتے ہوئے۔اور اگر یہ مال اس کی کسب حرام یعنی سود کی کمائی سے ہوتو ورثاء کے لیے حلال ہے اور اس کا گناہ میت پرہے، کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ جب لوگوں کا مرنے والا مر جائے تو وہ پوچھتے پھریں کہ وہ اس مال کا کیسے مالک بنایا کس طریقہ سے یا اس کے ملک میں آیا؟ (ابن عثيمين :نور علي الدرب،ص:255/4) 447۔ایک آدمی مر گیا اور غصب شدہ مال چھوڑ گیا۔ وراثت اگر غصب شدہ مال ہوا اور اس کے مالکان کا علم ہوتو ان کو واپس کرنا واجب ہے، کیونکہ یہ مظالم ہیں،انھیں باقی رکھنا اور ان پر قابض رہنا جائز نہیں ،بلکہ مالکان کو واپس کرنا اور اس کےشر سے نجات پانا ضروری ہے، اگر اصل مالکان موجود نہیں تو ورثاء اس مال کو صدقہ کردیں گے اور اس کا اجر اصل مالکان کے لیے ہو گا۔ (الفوزان:المنتقيٰ:110) 448۔تعزیت کے وقت میت کے رشتہ داروں کو تحائف دینا۔ میت کے رشتہ داروں میں سے جو زندہ ہیں انھیں جو چیز ہدیتاً دی جائے گی وہ اس کی ملکیت بن جائے گی، لیکن میت کے لیے ہبہ جائز نہیں، سوائے اس کے کہ اس کی طرف سے صدقہ کر کے ثواب کا ہدیہ کیا جائے، لوگوں کی یہ عادت
Flag Counter