اب کیا ہوتا ہے کہ ایک آدمی مطلقہ عورت سے نکاح اس نیت سے کرتا ہے کہ جب خاوند کے لیے حلال کردے گا تو طلاق دیدے گا،یعنی ہم بستر ہونے کے لیے طلاق دیدے گا،پھر اس سے پہلے خاوند اس کی عدت کے بعد نکاح کرلے،یہ طلاق باطل ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت کی ہے اور حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈھ کہا ہے۔[1]
کیونکہ وہ اس سانڈھ کی مانند ہے جسے بکریوں کا چرواہا کچھ وقت کے لیے لاتاہے اور پھر اس کے مالک کو واپس کردیتا ہے،یہ آدمی سانڈھ کی طرح ہے،اس سے اس عورت سے جفتی اورپھر علیحدگی کا کہا گیا،یہی نکاح حلالہ ہے۔
(ابن عثيمين :نور علي الدرب،ص:3)
186۔نكاحِ حلالہ کی صورت۔
حلالہ دو صورتوں پر ہوتا ہے:
1۔پہلی صورت:عقد نکاح میں شرائط لگائی جاتی ہے کہ خاوند سے کہا جاتا ہے ہم تیرے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرتے ہیں کہ تو اس سے ہم بستری کرے گا اور پھر اسے طلاق دیدے گا۔
2۔دوسری صورت:یہ نکاح بغیر کسی شرط کے ہو، بلکہ نیت کے ساتھ ہو اور نیت کبھی تو خاوند کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی بیوی اور اس اس کے سرپرستوں کی طرف سے، اگر خاوند کی طرف سے ہو تو بالیقین اسے ہی جدائی کا اختیار ہوتا ہے، لہذا اس لیے اس عقد کی صورت میں بیوی حلال نہیں
|