بسم اللّٰه الرحمن الرحیم مقدمہ الحمدللّٰه الذی لا تتم الصالحات الا برضاہ فبہ نستعینوولامستعان من سواہ ولا یعین احد من استعنہ الاالتراب یملأ فاہ والصلاۃ والسلام علی محمد الذی علی العالمین اصطفاہ واختارہ للمعراج فاسراہ فمن سلک طریقہ تقیدہ تقواہ والعاند مکدوس لاینفعہ قواہ امابعد اللہ سبحانہ ٗو تعالیٰ اپنے بندوں کے امتحان کے لیے ان کو مختلف آزمائشوں سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔بعض اوقات اللہ سبحانہ ٗو تعالیٰ کی کوئی نعمت ہی اس کے بندوں کے لیے فتنہ بن جاتی ہے‘ جیسا کہ مال اور اولاد کے بارے میں قرآن میں مذکور ہے۔برصغیر پاک و ہند میں حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ سے علومِ حدیث و سنت کے احیاء کی جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ مختلف اَدوار سے گزرتی رہی۔اسی تحریک کی وجہ سے علماء نے حدیث ‘ تاریخ اورسیر تِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے متعلقہ سینکڑوں کتب کے تراجم کیے تاکہ عامۃ الناس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث‘ سیرت ‘ حیاتِ صحابہؓ اور تاریخ اسلام سے واقف ہو سکیں۔بلاشبہ علماء کا یہ کام ایک علمی اور نفع بخش کام تھا۔لیکن جہاں ایک کام میں خیر کے پہلو ہوتے ہیں وہاں کچھ مفاسد بھی اس سے متعلق ہوجاتے ہیں۔مصادرِ اسلامیہ سے متعلق ان سینکڑوں کتب کے تراجم کا ایک بڑا نقصان جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آیا‘ وہ یہ ہے کہ عامۃا لناس میں بعض افراد نے ان مترجم کتب کے جزئی مطالعہ کے بعد اپنے آپ کو درجۂ اجتہاد و افتاء پر فائز سمجھا اور مفکرا سلام کی نشست سنبھالتے ہوئے اسلام کی چودہ صد سالہ علمی تاریخ و روایت کو کارِ عبث قرار دیا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے حوالے سے بھی معاصر معاشروں میں ہمیں سینکڑوں ایسے افکار و نظریات نظرآتے ہیں جو کہ راہِ اعتدال سے بہت دُور ہیں‘مثلاً قادیانی‘ نیچری‘ پرویزی اور جماعت المسلمین وغیرہ۔بعض مفکرین نے ایک انتہا پر جاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قسم کی تشریعی حیثیت ہی کوماننے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے آپؐ کے ہر ہر قول اور فعل کو یکساں درجے کا سمجھ کر شریعت سمجھ لیا۔اس مضمون میں ہمارے پیش نظر اِس وقت دوسرے گروہ کے افراد ہیں۔یہ حضرات سنت کے مسئلے میں اُس غلو میں مبتلا ہیں جس سے آپؐ نے منع کیا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حج کے موقع پر فرمایا: ((وَاِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ‘ فَاِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ))(۱) |