Maktaba Wahhabi

485 - 531
پھر صفحہ ۴۷ پر یہ عنوان قائم کیا ہے : تدبر حدیث کے چند بنیادی اصول: اس عنوان کے تحت انہوں نے پانچ اصول بیان کیے ہیں جن میں سے چار اصولوں پر گزشتہ سطور میں تبصرہ کیا جا چکا ہے اور پانچواں اصول: دین اور عقل و فطرت میں منافات نہیں ہے ‘‘ یہ اصول اس وقت زیربحث ہے اس عنوان میں انہوں نے عقل و فطرت کو ایک ساتھ جمع کرکے ان کو ایک کر دیا ہے جس کی غلطی قرآن وحدیث سے واضح کی جا چکی ہے ۔ پھر انہی اصولوں کو انہوں نے ص ۵۷ سے ۷۵ تک دوسرے الفاظ میں دہرایا ہے ، اور ان کو صحیح اور سقیم حدیثوں کو پرکھنے کی کسوٹی قرار دیا ہے ، صحیح اور سقیم حدیثوں کے لیے انہوں نے ’’غث و سمین‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے ، سلسلہ کلام کے اندر رہتے ہوئے اس وقت میرے زیربحث پانچویں کسوٹی ہے ، یہ ساری بحث حافظ خطیب بغدادی کی کتاب ’’الکفایہ‘‘ سے ماخوذ ہے جہاں انہوں نے صرف دعوے کیے ہیں اور اپنی بات کو مثالوں سے واضح نہیں کیا ہے اصلاحی صاحب نے بھی ویسا ہی کیا ہے ، کیونکہ وہ ان کے مقلد ہیں اور مقلد خود کوئی دلیل نہیں رکھتا، اگر دلیل رکھے تو پھر مقلد نہ ہوا۔ اصلاحی صاحب نے حدیث کے ’’غث و ثمین ‘‘ میں امتیاز کے لیے جس عقل کو ’’کسوٹی‘‘ اور معیار قرار دیا ہے ، وہ ان کے نزدیک ’’عقل کلی‘‘ ہے افراد و انفار کی عقل نہیں ‘‘[1] (ص:۷۲) صاحب الکفایہ نے صرف عقل لکھا ہے ۔[2] اصلاحی صاحب نے بغدادی کی تعبیر ’’فی منافات حکم العقل ‘‘ میں ’’منافات‘‘ کو کلی تضاد کے معنی دیے ہیں اور خلاف معمول اس مسئلہ پر بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے جو الکفایہ میں نہیں ہے ۔ تحریر فرماتے ہیں : ’’منافات کے معنی کلی تضاد کے ہیں فرض کر لیجیے کہ دو چیزوں میں تطبیق ہو سکتی ہے تو تطبیق دے لیں اس میں اعتراض کا کوئی پہلو نہیں ، لیکن اگر صورت حال یہ ہے کہ نہ تو تطبیق ہو سکتی ہے اور نہ ترجیح ہی ہو سکتی ہے …تو لازما ایک چیز رد کر دی جائے گی ۔[3]انہوں نے یہاں یہ نہیں لکھا ہے کہ تطبیق یا ترجیح کے ناممکن ہونے کی صورت میں حدیث اور عقل میں سے کس کو چھوڑا جائے گا۔ لیکن آگے انہوں نے قرآن و حدیث اور حدیث اور عقل میں منافات کی جو مثال دی ہے اس کو اپنے اس فیصلے پر ختم کیا ہے : ’’ہم قطعی طور پر یہ مانتے ہیں کہ دین کی بنیاد عقل و فطرت پر ہے ، اس کی اپیل بھی اسی پر ہے اس وجہ سے دین کی کوئی بات عقل کے منافی نہیں ہو سکتی ، لہٰذا ایسی تمام روایات رد کر دی جائیں گی جو عقل کلی کے منافی ہوں گی‘‘[4] ﴿کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا﴾ ’’یہ بہت سنگین بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے وہ سراسر جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔‘‘ اس کے بعد اصلاحی صاحب نے قرآن و حدیث میں منافات کی جو مثال دی ہے اس پر سنجیدہ علمی بحث کرنے سے قبل خطیب بغدادی کے اس قول کے بارے میں آئمہ حدیث کے نقطہ نظر کو بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کو
Flag Counter