کی زبان مبارک سے قرآن کی نازل ہونے والی سورتوں کے سننے والوں کی جو بھی تعداد ہوتی اس سے قطع نظر ان کے ذریعہ دوسروں میں وہ پھیل جاتیں ، اس طرح ہر سورت اپنی کامل آیتوں اور ان کی ترتیب کے ساتھ سینوں میں محفوط ہو جاتی، رہا تحریر شدہ قرآن تو وہ اسی طرح غیر مرتب ہی رہتا جس طرح اپنے نزول کے وقت ضبط تحریر میں لایا جاتا تھا، کیونکہ کسی سورت کی تمام آیتوں کے نازل ہونے کے بعد اس کو مکمل طور پر پوری ترتیب کے ساتھ لکھنے کا تقاضا یہ تھا کہ تحریر شدہ قرآن میں بار بار تبدیلی اور کاٹ چھانٹ کی جائے، اور ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ایسا کرنا اس وقت کے حالات، امکانات اور ان چیزوں کی شدید قلت کی وجہ سے ممکن ہی تھا جن پر قرآن پاک لکھا جاتا تھا۔
مذکورہ تفصیلات سے جو حتمی نتیجہ نکلا وہ یہ کہ عہد صدیقی میں جب قرآن پاک لکھا گیا تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو خود بھی جید حافظ قرآن تھے اور کتابت وحی میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے کھجور کی چھالوں ، سفید پتھر کی تختیوں ، اور چمڑوں وغیرہ سے نیز حفاظ کے سینوں سے یکجا اور پوری ترتیب کے ساتھ ایک صحیفہ میں جمع کر دیا، یہ ایک نسخہ تھا اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے تک ایک ہی نسخہ رہا جس سے خلیفہ سوم نے سات نسخے تیار کرا کے مختلف اسلامی شہروں میں بھیج دئیے، یہ نسخے بھی زید بن ثابت نے تیار کیے تھے، بلکہ مصحف صدیقی سے نقل کیے تھے، یہ نسخے تیار کرنے میں ان کو عبد اللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبد الرحمن بن ہشام رضی اللہ عنہم کا تعاون بھی حاصل تھا۔[1]
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مصحف صدیقی تیار کرتے وقت ازراہ احتیاط قرآن کے تحریری صحیفوں سے تو ضرور مدد لی، مگر آیتوں اور سورتوں میں ترتیب حفاظ کے سینوں میں محفوظ قرآن پاک کی روشنی میں اور اس کے مطابق باقی رکھی، کیونکہ خود زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اور دوسرے حفاظ قرآن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر ہی اسے سینوں میں محفوظ کیا تھا۔
معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے پوری ترتیب کے ساتھ محفوظ رہنے کا بنیادی سبب اس کا حفظ سینہ ہی ہے حفظ سفینہ نہیں ۔
حدیث کے غیر یقینی ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور اس کے محفوظ ہونے کو مشکوک کہنے والے اس بات کا بڑے زور و شور سے اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ قرآن آغاز نزول سے تکمیل نزول تک اور اس کے بعد ہر دور میں تواتر کے ساتھ منتقل ہوتا آ رہا ہے، جبکہ حدیث کی منتقلی کی یہ صورت کبھی نہیں رہی، میں اس دعویٰ کی دھجیاں تو ان شاء اللہ بعد میں بکھیروں گا اس وقت سلسلۂ بحث کے اندر رہتے ہوئے اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ:
کیا حفاظ قرآن کی تعداد متواتر تھی؟
اس سوال کا جواب ’’نعم‘‘ میں دینے کے لیے تو اتر کی تعریف ضروری ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس کی تعریف پر
|