Maktaba Wahhabi

271 - 531
جنت کے لیے جنتیوں کو اور جہنم کے لیے جہنمیوں کو پیدا کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ لوگ عمل کے بغیر جنت یا جہنم میں ڈال دیے جائیں گے اور نہ یہی مطلب ہے کہ اہل جنت ایسے اعمال انجام دینے اور اہل جہنم ایسے اعمال کے ارتکاب پر مجبور ہیں جو ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا سبب بنیں گے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور ان کے اعمال کو پیدا کرنے کے باوجود ان کو عمل کرنے اور نہ کرنے کی پوری آزادی عطا کی ہے اور ہر عمل کا انجام بھی بتا دیا ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ مسلمانوں کے نا بالغ بچے جنت میں جائیں گے؟ تو اس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے بچے کے جنتی ہونے کا حکم اس لیے نہیں لگایا ہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ مسلمانوں کے نابالغ بچے جنتی ہیں اور آپ اپنے ’’جی‘‘ سے کوئی شرعی بات نہیں فرماتے، بلکہ آپ کی ہر بات وحی الٰہی پر مبنی ہوتی تھی۔ ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی، اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی﴾ (النجم: ۳۔۴) ’’وہ اپنے جی سے کوئی بات نہیں بولتا وہ تو صرف وحی ہے جو اس کو کی جاتی ہے۔‘‘ اس کے بعد شیخ غزالی نے صحیحین میں حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کا ایک فقرہ نقل کرکے یہ دعوی کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ حدیث، حضرت سہل کی آنے والی حدیث اور دوسری صحیح حدیث انسان کو مجبور محض ہونے پر دلالت کرنے اور قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود اور ناقابل التفات ہیں ۔ غزالی نے حدیث کا جو فقرہ نقل کیا ہے وہ درج ذیل ہے: ((إن الرجل یعمل عمل أہل الجنۃ، فیما یبد وللناس وہو من أہل النار وإن الرجل لیعمل عمل أہل النار فیما یبدو للناس وہو من أہل الجنۃ۔)) [1] ’’در حقیقت ایک آدمی بظاہر اہل جنت جیسا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک آدمی لوگوں کی نظر میں اہل دوزخ جیسا کام کرتا ہے۔ حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اس حدیث کی شان نزول یہ ہے کہ غزوہ احد میں ایک شخص نے خوب بہادری دکھائی اور تن تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! اس شخص نے ہمیں جو فائدہ پہنچایا ہے وہ کسی اور نے پہنچایا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ جہنمی ہے بعد میں وہ شخص زخموں سے چور ہو گیا اور شدت تکلیف سے خود کشی کر لی۔ صحابہ کرام میں سے ایک صاحب اس پر نظر رکھے ہوئے تھے اور جب انہوں نے اس کا آخری انجام دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: أشہد أنک رسول اللّٰہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
Flag Counter