((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما مسکتم بہما: کتاب اللّٰه وسنۃ نبیہ۔)) [1]
’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم لوگ اسے پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔‘‘
امام مالک نے یہ حدیث بلاغ کی شکل میں روایت کی ہے جس کی کوئی سند نہیں بیان کی ہے، لیکن حافظ ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں اس کی روایت متصل سند سے کی ہے:
’’ہم سے سعید بن عثمان نے بیان کیا، کہا: ہم سے احمد بن دحیم نے بیان کیا، کہا: ہم سے محمد بن ابراہیم دؤلی نے بیان کیا ، کہا: ہم سے عصی بن زید فرائضی نے بیان کیا ، کہا: ہم سے حنینی اسحاق بن ابراہیم نے کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف سے، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمرو سے اور انہوں نے ان کے دادا عمرو بن عوف سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے…[2]
اس سند میں کثیر بن عبداللہ ضعیف، عبداللہ بن عمرو بن عوف مقبول اور اسحاق بن ابراہیم حنین ضعیف ہیں جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف قرار پائی، مگر محدث البانی نے ایک مضبوط شاہد کی وجہ سے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ [3]
(۶)… عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجات پانے والی جماعت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ما أنا علیہ وأصحابی، وہ اس طریقے پر قائم ہوگی جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں ۔[4]
قرآن وحدیث کی مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ اہل سنت وجماعت صرف وہ لوگ ہیں جو عقائد واعمال میں بدعت وانحراف سے پاک اور کتاب وسنت کی تعلیمات پر قائم اور عمل پیرا ہیں دوسرے لفظوں میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے متبع اور صحابہ کرام کے طریقے پر کار بند ہیں ۔
اور یہ بات قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء، صفات اور افعال سے متعلق ایک بھی مسئلہ میں کوئی اختلاف منقول نہیں ہے، بلکہ سارے صحابہ اس مسئلہ میں متفق العقیدہ تھے اور از اوّل تا آخر کتاب وسنت کی تصریحات کو جوں کا توں ، بلا کسی تاویل وتحریف کے مانتے تھے، نہ تو ان میں سے کسی نے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا انکار کیا، نہ کسی صفت کے لیے کوئی مثال بیان کی، اور نہ کسی صفت کے بارے میں یہی کہا کہ یہ اپنے حقیقی مفہوم میں نہیں ، بلکہ مجازی معنی میں ہے، بلکہ انہوں نے تمام اسماء اور صفات کو ان کے الفاظ سے نکلنے والے معانی ہی پر محمول کیا، سب پر ایک ساتھ ایمان لائے، سب کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور سب پر ایک ہی حکم لگایا، کوئی ایک بھی واقعہ ایسا ثابت
|