Maktaba Wahhabi

223 - 531
غزالی نے زیر بحث حدیث سے غلط مطلب لے کر قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے، تو میں سو فیصد حق بجانب ہوں گا، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ۱۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دو سندوں سے آئی ہے۔ [1]اور دونوں میں سے کسی ایک میں یہ اشارہ تک نہیں ہے کہ موسی علیہ السلام موت کو ناپسند کرتے تھے، بلکہ یہ بات فرشتۂ موت نے موسی علیہ السلام کا تھپڑ کھا کر اللہ تعالیٰ سے عرض کی تھی۔ یاد رہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے جلالی مزاج سے قطع نظر، فرشتۂ موت کو طمانچہ اور تھپڑ مار کر بالکل طبعی اور قدرتی تصرف کیا تھا، کیونکہ اس نے ان کی خدمت میں انسانی شکل میں حاضر ہو کر ان سے جان دینے کی درخواست کی تھی اور وہ اس کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا فرشتہ نہیں سمجھے تھے ورنہ اس کو تھپڑ نہ مارتے۔ واقعہ کی اس غرابت اور انوکھے پن کے ساتھ اگر موسی علیہ السلام کے جلالی مزاج کو بھی شامل کر لیا جائے جس کی تصویر قرآنی بیان سے ملتی ہے۔ تو پھر فرشتہ موت کے ساتھ ان کا طرز عمل طبعی اور قدرتی نظر آ ئے گا۔ فرشتوں کے انسانی شکل اختیار کر کے انبیاء اور غیر انبیاء کے پاس آنے کی مثالیں قرآن و حدیث دونوں میں موجود ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں فرشتے انسانی شکل میں حاضر ہوئے جن کو انہوں نے انسان ہی سمجھا، ورنہ ان کے سامنے کھانے کے لے بھنا ہوا بچھڑا نہ رکھتے، اسی طرح لوط علیہ السلام کی خدمت میں بھی فرشتے انسانی شکل میں حاضر ہوئے تھے اور وہ ان کو انسان ہی سمجھتے رہے اور قرآن کے فحوائے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم کی بدچلنی اور خلاف فطرت کردار کے پیش نظر فرشتے ان کی خدمت میں خوب صورت لڑکوں کی شکل میں حاضر ہوئے تھے اسی وجہ سے لوط علیہ السلام ان کی آمد پر پریشان ہو گئے تھے کہ اپنے ان خوب صورت مہمانوں کو اپنی خبیث اور بدچلن قوم سے کس طرح بچائیں ؟ حضر ت مریم علیہا السلام کے واقعہ میں تو قرآن یہ تصریح کرتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ان کی خدمت میں ایک بھرپور مرد کی شکل میں حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے بھی ان کو انسان ہی سمجھ کر ان سے رحمان کی پناہ میں آنے کی التجا کی تھی۔ میں نے یہ مثالیں اس لیے دی ہیں تاکہ یہ معلوم رہے کہ موسی علیہ السلام کی خدمت میں فرشتۂ موت انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا اور انہوں نے اس کو انسان ہی سمجھا تھا۔ ۲۔ غزالی نے اس زیر بحث حدیث کے متن کے عدم صحت پر صحیحین کی جس حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ استدلال بے محل ہے؛ کیونکہ یہ دوسری حدیث اس وقت موت کا خیر مقدم کرنے اور اس کو پسند کرنے کو مومن کی صفت قرر دیتی ہے جب فعلاً اس کا وقت آ جائے، جبکہ اس زیر بحث حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ موت کا فرشتہ ان کی خدمت میں بصورت انسان آیا تھا اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق آتے ہی ان سے کہا تھاکہ: ((أجب
Flag Counter