Maktaba Wahhabi

189 - 531
فقہی مسلک پر وہ عمل پیرا ہیں اس پر حرف بھی نہ آئے اور حدیث سے نجات بھی مل جائے۔ درحقیقت اگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہوتا کہ دوسرے صحابہ کرام اپنے بھائی سلیک کی حالت زار دیکھ کر ان کی مدد کریں تو آپ براہ راست اس کا حکم دیتے یا کم از کم اس کی جانب اشارہ ہی فرما دیتے، نہ یہ کہ ایک ایسے غیر متعلقہ عمل کے بارے میں ان سے سوال کرتے اور پھر ان کو اس عمل کے انجام دینے کا حکم دیتے اور پھر تمام مسلمانوں پر اس عمل کے لزوم کی تعلیم جاری فرماتے جس عمل کا ان کی حالت زار کو بہتر بنانے سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا، بلکہ جو عمل آپ کے سابقہ حکم کے سلسلے ہی کی ایک کڑی تھا، یعنی تحیۃ المسجد۔ دراصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اشارے کنائے اور تلمیحات کے اسالیب سے پاک تھی اور آپ جب کسی خستہ حال فرد یا افراد کو دیکھتے تو واضح طریقے سے لوگوں کو ان کی مدد کرنے کا حکم دیتے یا ان کی خستہ حالی پر اپنے باطنی کرب کو اپنے چہرۂ انور کی تبدیلی سے بیان فرما دیتے، جیسا کہ قبیلۂ مضر کے آشفتہ حال لوگوں کی آمد کے موقع پر آپ نے کیا تھا اور پھر خطبہ دے کر لوگوں کو ان کی مدد کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔[1]مگر یہ کون سا طریقہ ہے کہ آپ چاہتے تو کسی کی مدد ہوں اور تعلیم دیں تحیۃ المسجد کی؟ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دو خطبہ کے دوران خاموشی اختیار کرنے اور توجہ سے خطبہ سننے کا حکم دیا ہے اور تحیۃ المسجد کی نماز اس حکم سے متعارض ہے۔ ان کو میرا پہلا جواب تو یہ ہے کہ جس حدیث سے خطبہ کے دوران خاموشی اختیار کرنے پر استدلال کیا جاتا ہے وہ اپنے اس حکم میں صریح نہیں ہے میری مراد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ مرفوع حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِذا قلت لصاحبک یوم الجمعۃ أنصت والِامام یخطب فقد لغوت)) [2] ’’اگر تم نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ دیتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا: خاموش رہو‘‘ تو تم نے غلط اور بیہودہ بات کہی‘‘ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ((اِذا جاء أحدکم یومَ الجمعۃ، والاِمام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) ’’جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اس وقت آئے جب امام خطبہ دے رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ دو رکعتیں ادا کرے اور ان میں اختصار سے کام لے‘‘ اپنے مفہوم اور حکم میں واضح اور صریح ہے اور کسی تاویل کی محتاج نہیں ہے۔ خطبۂ جمعہ کے اثناء تحیۃ المسجد سے روکنے والوں کو میرا دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہیں اور اپنی صحت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت میں دونوں کا درجہ یکساں ہے، بلکہ تعدد طرق کے
Flag Counter