Maktaba Wahhabi

46 - 146
پکار (دعا) کو قبول کرتا ہوں ۔‘‘ تفسیر خازن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا گیا ہے کہ یہودانِ مدینہ نے یہ سوال کیا تھا کہ اللہ تو عرش پر ہے اور عرش و فرش کے درمیان اتنے آسمان کا بعد اور غلظت حائل ہے پھر اللہ ہماری کیوں کر سنتا ہے۔ تب اللہ عزوجل نے یہ جواب بھیجا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض نے یہ سوال کیا تھا: کیا ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ آہستہ آہستہ اس سے مناجات کیا کریں یا ہمارا رب ہم سے بعید ہے کہ ہم اسے زور زور سے پکارا کریں ۔ تب یہ جواب اترا تھا۔ ایک صحیح حدیث میں بھی یہی اسم آیا ہے۔ صحیحین میں حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر کو تشریف لے جا رہے تھے۔ لوگوں نے ایک وادی میں چڑھتے ہوئے اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی تکبیر زور سے لگائی تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَیُّھَا النَّاسُ اَرْبِعُوْا اَنْفُسَکُمْ فَاِنَّکُمْ لَا تَدْعُوْنَ صُمًّا وَلَا غَائِبًا اِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا قَرِیْبًا۔)) ’’اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو تم کسی بہرہ کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو، تم سمیع و بصیر و قریب کو پکار رہے ہو۔‘‘ آیت قرآنی میں قَرِیْبٌ فرمایا اور اس کے تحت اجابت دعوت کا ذکر کیا۔ حدیث صحیح میں قَرِیْبٌ فرمایا اور اس کا مطلب سَمِیْع، بَصِیْر کے اسماء میں آشکارا فرما دیا۔ انسان غور کرے کہ قرب کے خواص کیا ہیں ۔ جب کسی شے یا انسان کے احوال پر ہمارا علم، ہماری شنوائی، ہماری بینائی بیک وقت بیک لحظہ کار فرما ہوں تو ثابت ہوگا کہ وہ شے ہم سے قریب ہے یا ہم اس سے قریب ہیں ۔ ہم سے اس شے کا قریب ہونا تب صحیح ہوگا جب اس کا علم، کان اور آنکھیں بھی ہمارے اوپر وہی عمل کرتے ہیں ۔ اللہ عزوجل جس کا علم ہر ذرہ ذرہ پر حاوی ہے اللہ تعالیٰ کی بصر جو شب تاریک میں
Flag Counter