Maktaba Wahhabi

119 - 146
قدرتِ الٰہیہ سے ہوتا ہے۔ مصائب کو دور کرنا، نوائب کو ہٹانا، عطیہ انعامات و سعادات، مرادوں کا پورا کرنا، آرزوؤں کا برلانا، گناہاں و تقصیرات ماضیہ سے درگزر، مستقبل کی اصلاح و فلاح آخرت کی بہبودی، دنیا کی سلامتی، حیات و ممات، عطیہ مال و اولاد۔ کشائشِ رزق، افزائشِ عمر وغیرہ وغیرہ کی استعانت خاص رب العالمین ہی کا خاصہ ہے۔ اسی کی تعلیم سورہ فاتحہ میں دی گئی ہے اور اسی کو بار بار یاد دلانے اور پیش نظر رکھنے کے لیے فاتحہ کو ہر ایک نماز میں اور ہر ایک رکعت میں پڑھنا ضروری و لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جب ﴿اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن﴾ اللہ تعالیٰ کے خاص حقوق میں سے ہو تو ضروری ٹھہرا کہ مستعان صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے پاس جب ان کے فرزند یوسف علیہ السلام کا خون آلود کرتہ لے گئے اور ظاہر کیا کہ یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے۔ تب انہوں نے زبان سے بھی کہا تھا: ﴿وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ﴾ (یوسف: ۱۸) ’’اور تمہاری گھڑی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔‘‘ اس اسم پاک اور استعانت باللہ کا اثر یہی ہوا کہ بالآخر یوسف و یعقوب علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے ملایا اور یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے اقبال و کامرانی نبوت و حکمرانی کا جلوہ دکھلایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کفارہ عرب کے مقابلہ میں یہ دعا پڑھی تھی: ﴿وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۱۱۲) ’’اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے، ان باتوں پر جو تم بیان کرتے ہو۔‘‘ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حق بندہ پر دو ہیں ۔ عبادت و استعانت۔ جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو کم کرے گا دوسرے کو دے گا، دوسرے کو ایسے حق کا اصلی یا حقیقی یا عارضی یا مجازی مالک سمجھے گا وہ شرک کے گہرے گڑھے میں گر جائے گا۔ اعاذنا اللہ منہا!
Flag Counter