آکر رہنے لگا۔ حضرت ابن کریز رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمھارے بارے میں جو باتیں پتہ چلی ہیں ان کا کیا جواب ہے تمھارے پاس! بہتر ہوگا کہ تم یہاں سے دفع ہو جاؤ۔‘‘ ابن سبا بصرہ سے نکل گیا لیکن وہاں اپنے پیرو کار چھوڑ گیا۔ یوں سبائی تحریک کی ایک شاخ وہاں بھی اپنا کام کرنے لگی۔ بصرہ سے نکل کر وہ کوفہ چلا گیا۔ کوفیوں کی باغیانہ خو زبان زد عام تھی۔ بغاوت کی تحریک اٹھانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ تو ایسے آدمی کے انتظار میں رہتے تھے جو انھیں انحراف کی راہ دکھائے۔ ان کی بڑی تعداد ابن سبا کے گمراہ کن افکار و نظریات سے متأثر ہوئی اور اس کی ہمنوا بن گئی۔ کوفہ کے وزیر حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو ابن سبا کی حرکتوں کا پتہ چلا تو آپ نے اسے کوفہ سے نکال دیا۔ اب اس نے فسطاط (مصر) کا رخ کیا۔ وہاں اُس نے خوب بال و پر نکالے۔ کم عقل ، نافرمان اور جرائم پیشہ افراد کو اپنے ساتھ ملایا اور انھیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ مصر ہی کو اس نے اپنی ہلاکت خیز سر گرمیوں کا مرکز قرار دیا اور مدینہ منورہ، کوفہ و بصرہ اور دیگر بڑے شہروں میں مقیم اپنے پیروکاروں سے خفیہ رابطہ رکھا۔ اس کی خفیہ تنظیم کے کارکنان اِن شہروں میں برابر متحرک رہے۔[1] سبائیوں کا طریقۂ واردات یہ تھا کہ وہ تقویٰ کا لبادہ اوڑھ کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بہانے خلیفہ وقت کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے، ان پر جھوٹے الزامات عائد کرتے اور لوگوں کو ورغلاتے کہ آگے بڑھ کر خلیفہ کا تختہ الٹ دو۔‘‘[2] انھوں نے بالخصوص اہل کوفہ کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا۔ انھیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ وزیر خلافت کے خلاف بغاوت کردیں۔ سبائیوں کی شہ |