یہ 29ذی الحج 23ھ/ 6 نومبر 644ء کی صبح تھی۔ تمام اصحاب مسجد نبوی میں تشریف لے آئے تو حضرت ابن عوف رضی اللہ عنہ قدم قدم چلتے ہوئے آگے بڑھے اور منبر رسول پر جلوہ افروز ہوئے۔ ابھی کچھ کہنے نہیں پائے تھے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا قاصد حاضر خدمت ہوا اور چپکے سے ان کا پیغام دیا کہ امت محمدیہ کی خیر خواہی کیجیے اور خود کو خلیفہ نامزد کرکے اپنے لیے بیعت لے لیجیے۔ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے مشورے کا کوئی جواب نہ دیا اور حمدو ثنا کے بعد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’علی! میں نے لوگوں کی ر ائے لی ہے۔ وہ عثمان کے علاوہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، اس لیے آپ اتفاق رائے کی خلاف وزری کرکے ہدف ملامت نہیں بنیے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کیا اور فرمایا: ’’عثمان! میں خدا و رسول اور ان کے بعد ابوبکر و عمر کے طریقے کے مطابق آپ کی بیعت کرتا ہوں۔‘‘ ان کا یہ کہنا تھا کہ تمام لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ اول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے بعد تمام مہاجرین و انصار اور وزرائے خلافت کے ہمراہ عام مسلمانوں نے بھی بیعت کی۔[1] خلیفۂ ثالث کے طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا انتخاب تمام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ صحابۂ کرام انھیں حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد امت کا افضل ترین فرد قرار دیتے تھے۔ یوں یہ امر نہایت فطری تھا کہ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بعد ان کا انتخاب عمل میں آتا۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بھی تمام مسلمانوں کو یہی توقع تھی کہ آئندہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔ کوفہ کے معروف تابعی حضرت حارثہ |