Maktaba Wahhabi

175 - 241
ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ وہ اس دور دراز ملک میں اطمینان و سکون سے رہنے لگے۔ اب وہ بے روک ٹوک اللہ کی عبادت کر سکتے تھے۔ شاہ حبشہ نجاشی نے ان کی میزبانی کے فرائض بڑی تندہی سے انجام دیے۔ اس نے نئے مہمانوں کے آرام و سکون کا ہر طرح خیال رکھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ محترمہ حبشہ میں قیام پذیر رہے تا آنکہ اہل قریش نے یہ جھوٹی خبر پھیلائی کہ انھوں نے اسلام قبول کرکے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کا اقرار کر لیا ہے۔ مہاجرین حبشہ یہ خبر پاکر خوشی خوشی اپنے وطن لوٹے۔ یہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اشراف قریش کے قبول اسلام کی خبر جھوٹی تھی۔ بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کریں اور کہاں جائیں۔ مکہ میں رہیں یا واپس چلے جائیں۔ اس پریشانی کا حل جلد نکل آیا۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یثرب کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مل گئی، چنانچہ تمام مسلمان یکے بعد دیگرے یثرب کی طرف ہجرت کر گئے۔ یثرب میں یہودیوں کا بڑا اثر و رسوخ تھا۔ اوس و خزرج کی باہمی لڑائیوں سے انھوں نے بہت فائدہ اٹھایا اور خاصی دولت بٹوری تھی۔ میٹھے پانی کا واحد کنواں ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ وہ کنویں کا پانی فروخت کیا کرتا اور سینکڑوں روپے نفع کماتا تھا۔ کئی مسلمانوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس یہودی کی سنگدلی اور دریدہ دلیری کی شکایت کی اور بتایا کہ وہ مردود چند قطرے پانی کے عوض بیسیوں روپے بٹور لیتا ہے۔ آپ نے تمام مسلمانوں کو بلا بھیجا تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔ مشاورت کے بعد یہی طے پایا کہ کنواں خرید لیا جائے۔ مسلمانوں میں جو افراد اصحاب ثروت تھے، آپ نے انھیں اس کی ترغیب دلائی، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہودی سے کنویں کا
Flag Counter