لوٹ آتے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے،تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جائے جس سے بے پردگی کا امکان رہتا ہے۔[1]
پھر اگلی ہی آیت (۲۸) میں فرمایا ہے:
{فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ}
’’اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تمھیں اجازت نہ دی جائے،اس میں مت داخل ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو،یہ تمھارے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام تم کرتے ہو،اللہ سب جانتا ہے۔‘‘
-111 محرموں کے سوا کسی کے لیے زینت ظاہر نہ کرنا:
سورۃ النور (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِھِنَّ اَوْ نِسَآئِھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا
|