Maktaba Wahhabi

374 - 460
سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں،کیوں کہ کافر اللہ کے دشمن ہیں اور اہلِ ایمان کے بھی دشمن ہیں توپھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآنِ کریم میں کئی جگہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ جہاں تک کچھ اجازت کا کہا گیا ہے تو یہ اجازت ان مسلمانوں کے لیے ہے جو کسی کافر کی حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لیے اگر کسی وقت اظہارِ دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ 2۔آگے آیت (۱۱۸) میں ارشادِ الٰہی ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ} ’’مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا۔‘‘ {بِطَانَۃً}دلی دوست اور رازدار کو کہا جاتا ہے۔کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات و عزائم رکھتے ہیں،ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنھیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشان دہی فرما دی ہے۔یہ اور اِسی قسم کی دیگر آیات کے پیشِ نظر ہی علما و فقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انھیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ تم انھیں اپنے قریب نہ کرو،جب کہ اللہ نے انھیں دور کر دیا ہے،ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذلیل کر دیا ہے اور انھیں راز دار مت بنائو،جب کہ اللہ
Flag Counter