آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں ) ان کو یاد رکھو،بے شک اللہ باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ اے نبیِ کی بیویو! تمھاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے،بلکہ اللہ نے تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے،اس کی وجہ سے تمھیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمھیں بھی امت کے لیے ایک نمونہ بننا چاہیے،چنانچہ انھیں ان کے مقام و مرتبے سے اگاہ کرکے انھیں کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصو صی ہدایت دی گئی ہے تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طورپر دل کشی،نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے،بنا بریں اس آواز کے لیے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو،تاکہ کوئی بد باطن لہجے کی نرمی سے تمھاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔
یہاں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بھی بتلا دیے گئے ہیں کہ اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے،جس سے تمھارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو،مت نکلو،جیسے بے پردہ ہوکر،جس سے تمھارا سر،چہرہ،بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے۔بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو۔{تَبَرُّجْ}بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔قرآن نے واضح کردیا کہ یہ تبرج،جاہلیت ہے،جو اسلام سے پہلے تھی اور آیندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا،یہ جاہلیت ہی ہوگی۔اسلام سے اس کا کوئی تعلق
|