Maktaba Wahhabi

65 - 148
کرام رضی اللہ عنہم قرآن کریم کو اپنی زندگی کا دستور،اپنی سعادت کا محور اور اپنے پیغمبرکا معجزہ سمجھتے تھے۔ اس نسخہ کیمیا کی خاطر انہوں نے اپنے وطن اور بچوں کی جدائی کے غم اٹھائے تھے،مال ودلت اور جاہ و حشمت کی قربانی دی تھی،بلکہ انہوں نے اس کے دفاع میں اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہ کیا۔ان حقائق کو جاننے والا ہر شخص یہ گواہی دے گا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پورے ایمان ویقین کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ قرآنِ کریم وحی آسمانی ہے اور قطعاً کسی انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔اگروہ سمجھتے کہ کسی آدمی کا اس میں کمی بیشی اور تبدیلی و تحریف کے حوالے سے کوئی دخل ہے تو قرآن کریم ان کے ہاں مختلف نظریات اور مذاہب کا ایک چیستاں بن جاتا۔اور ان کی انکار پسند طبیعتیں کبھی اس کے اتباع،اسے دستور و قانوں ماننے اور اپنا آپ اس کے حوالے کرنے پر آمادہ نہ ہوتیں کیونکہ وہ آزاد طبع لوگ تھے،غلامی اور کسی تسلط کو قبول کرنا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ دسویں دلیل: قرائے عشرہ کے ایک معروف قاری امام ابو عمرو بن العلا البصری رحمہ اللہ ہیں۔ عربی زبان و ادب کے بلند پایہ عالم اور درجہ امامت پر فائز تھے۔دور دراز علاقوں سے سفر کر کے لوگ ان سے اخذو استفادہ کے لیے آتے تھے۔نحو میں باقاعدہ ایک مذہب ( Th ught Sch l f ) کے بانی قرار پائے۔اس جلالتِ علمی کے باوجود جو قرا ء ات اپنے اساتذہ اور شیوخ سے حاصل کیں،ان سے سر مو انحراف نہیں کیا،خواہ وہ قراء ت ان کے اپنے نحوی مذہب کے خلاف ہی کیوں نہیں تھی۔امام اصمعی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ابو عمرو رحمہ اللہ نے مجھ سے فرمایا: ’’اگر یہ پابندی نہ ہوتی کہ میں ویسے ہی پڑھوں جیساکہ پیش رو قراء نے پڑھا ہے تو میں فلاں فلاں حرف کو یوں یوں پڑھتا۔‘‘ بیان کرتے ہیں کہ ابو عمرو رحمہ اللہ نقل و روایت کی اتباع میں اپنے نحوی نقطہ نظر کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے تھے۔
Flag Counter