کی اتباع مجھے زیادہ محبوب ہوتی۔ پس میں سورۃ الحج میں فتحہ اور سورۃ فاطر میں کسرہ پڑھتا۔‘‘ چوتھی دلیل: گولڈ زیہر اور اس کے ہم نوا ملحدین کی یہ رائے کہ قراءات کا باعث مصاحف کا نقطوں اور حرکات سے خالی ہونا تھا،اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ گویا قرونِ اولیٰ،یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے دور میں قرآن کریم کو مختلف طریقوں میں پڑھا گیا،لیکن ان میں سے صحیح وغیر صحیح،متواتر و غیر متواتر قراءات کے درمیان کوئی تمیز تھی نہ اس بارے میں کوئی امتیاز کہ کون سی قراءات اللہ کی طرف سے نازل شدہ اور کون سی اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عقل سلیم گولڈ زیہر کے اس تصور کو سرا سر باطل قرار دیتی ہے۔ اسعظیم مدبر اور حکیم ذات الٰہی کی حکمت کے منافی ہے کہ وہ قرآنِ کریم ایسے عظیم آسمانی دستور کو انسانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے کہ وہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند اور خواہش و رجحان کے مطابق جس طرح چاہیں اسے پڑھ لیں اور اپنی مرضی سے جو اسلوب اور تعبیر چاہیں اختیار کر لیں۔اور اسے اپنی آراء اور خیالات کاایک چیستاں بنا دیں۔ نہیں،ہرگز نہیں،یہ موہوم تصور اس علیم و حکیم ذات کی حکمت وقدرت کے سراسر خلاف ہے کہ نصِّ قرآنی تناقض و تعارض،انسانی دست برد،تحریف و تبدیلی اور اغلاط و تصحیفات کی آماجگاہ بن جائے،(جبکہ اس مدبرِکائنات نے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود اٹھا رکھا ہو)کوئی ذی ہوش انسان اس خیال کو اپنے دل میں جگہ نہیں دے سکتا۔ پانچویں دلیل: اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قراءات (متواترہ)کا یہ اختلاف رسمِ مصاحف کا مرہون منت ہے۔ رسمِ مصحف کے تناظر میں ہر قاری کو اپنی خواہش کے مطابق قرآن کو پڑھنے کی آزادی حاصل تھی اور قراءات ِقرآنیہ کو وحی اور زبان نبوت سے براہ راست حاصل کرنا |