الفاظ موجود ہیں کہ نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی بنا ء پر ان میں متعدد قراءات کا احتمال موجود ہے اور عربی لغت کے اعتبارسے بھی ان قراءات میں کوئی حرج نہیں ہے،اس کے باوجود تمام قراء ان الفاظ میں ایک ہی قراء ت پر متفق ہیں اور اس ایک قراء ت کے سوا کوئی دوسری قراء ت یہاں صحیح اور قابل اعتماد سند سے ثابت نہیں ہے۔ اور دیگر کچھ قراءات ایسی ہیں کہ رسم ِمصحف میں ان کی گنجائش ہونے کے باوجود،ان میں سے کوئی ایک بھی قراء ت ایسی نہیں ہے جو کسی قابل ِاعتبار سند سے ثابت ہو۔اس سلسلہ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں: (۱)۔ ’’خطف یخطف‘‘ عربی زبان کی رُو سے اس میں دو لغات ہیں:ایک باب ’’عَلِمَ یَعْلَمُ‘‘ سے ’’خَطِف یَخْطَفُ‘‘ ہے اور دوسری باب ’’ضرب یضرب‘‘ سے ’’خَطَفَ یَخْطِفُ‘‘ ہے۔لیکن تمام قراء نے اسے بالاتفاق باب ’’عَلِمَ یَعْلَمُ‘‘ سے ’’خَطِف یَخْطَفُ‘‘ ہی پڑھا ہے۔ (۲)۔ ’’مُکث‘‘ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیلًا﴾ عربی زبان کی رو سے یہاں میم کو زبر،زیر،پیش کے ساتھ تینوں طرح پڑھنا جائز ہے۔اور اس کے رسم میں بھی اس کی گنجائش موجود ہے۔لیکن تمام قراء نے بالاتفاق اسے میم کی پیش کے ساتھ ہی پڑھا ہے۔اگر قراءات ِقرآنیہ میں رائے اور ذاتی پسند نا پسند کو ادنیٰ بھی دخل ہوتا یا کلمات ِقرآنیہ کا نقطوں اور اعراب سے خالی ہونا اختلاف ِقراءات کا باعث ہوتا تو مذکورہ دونوں کلمات کی قراء ت میں قراء کا اختلاف ہونا چاہیے تھا۔ پھر ’’خَطَفَ یَخْطِفُ‘‘ کیوں نہیں پڑھا گیا؟ لفظ ’’مکث‘‘ کی میم کوزبر اور زیر کے ساتھ کیوں نہیں پڑھا گیا؟حالانکہ عربی لغت اس میں مانع تھی نہ رسم مصحف رکاوٹ تھا۔ اور یہاں قراءات کے اختلاف سے مفہوم میں بھی کوئی فرق واقع نہیں ہو رہا تھا۔اس کے باوجود تمام قراء کا بالاتفاق ایک ہی طریقے پر خَطِف یَخْطَفُ اور میم کی پیش کے ساتھ ’’مُکث‘‘ ہی پڑھنا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ قراءات قرآنیہ میں تنوع کا اصل باعث روایات صحیحہ،متصل اسانید، |