Maktaba Wahhabi

44 - 148
اگر یہاں حذف الف کے ساتھ بھی پڑھا جاتا تو لغوی اورمعنوی اعتبار سے کوئی حرج نہیں تھا لیکن یہاں حذف الف کی ایک بھی روایت ثابت نہیں ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر قراءات ِقرآنیہ وحی الٰہی کی بجائے محض رائے و اجتہاد کا کرشمہ اور رسم مصحف کا نتیجہ ہوتیں تو پھر لفظ ’’ملک‘‘ میں قراءات کا اختلاف صرف سورۃ فاتحہ کی حد تک محدود نہ ہوتا،بلکہ سورۃآل عمران اور الناس جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے،وہاں بھی ضرور قراءات کایہی اختلاف ہوتا،لیکن اس لفظ میں قراءات کا اختلاف صرف سورۃ الفاتحہ کے مقام پر ہے۔ سورۃآل عمران اور سورۃ الناس میں تمام قراء ایک ہی قراء ت پر متفق ہیں۔ثابت ہوا کہ قراءات قرآنیہ میں کسی کی ذاتی پسند و ناپسند اور اجتہاد کو قطعاً کوئی عمل دخل نہ تھا اور نہ ہی رسم الخط کا ان کی تعیین میں کوئی کردار تھا،بلکہ ان قراءات قرآنیہ کا تمام تر دارومدار سند،روایت اورنقل پر تھا۔ اس سلسلے کی دوسری مثال:لفظ ’’غشاوۃ‘‘ ہے۔ یہ لفظ قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے۔ ایک دفعہ سورۃ البقرۃ کی آیت﴿وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشٰوَۃٌ﴾ میں اور دوسری بار سورۃ الجاثیہ کی آیت﴿وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہِ غِشٰوَۃً﴾ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔اس لفظ کا رسم ان دونوں جگہ پر تمام مصاحف عثمانیہ میں شین کے بعد حذفِ الف کے ساتھ ہے۔اس کے باوجود سورۃ بقرۃ میں اس لفظ کو تمام قراء نے متفقہ طور پر غین کی زیر،شین کی زبر اور اس کے بعد اثبات الف کے ساتھ ’’غِشٰوَۃٌ‘‘ پڑھا ہے،لیکن سورۃ الجاثیہ میں بعض قراء نے اس لفظ کو غین کی زیر،شین کی فتح اور اس کے بعد اثباتِ الف کے ساتھ ’’غِشٰوَۃً‘‘ پڑھا ہے،اور بعض نے اسے غین کی زبر اور شین ساکن کے ساتھ ’’غَشْوَۃً ‘‘ پڑھا ہے۔ اگر سورۃ البقرۃ میں بھی اسے غین کی زبر اور شین ساکن کے ساتھ ’’غَشْوَۃً‘‘ پڑھ لیا جاتا تو لغوی اور معنوی طور پر کوئی حرج نہیں تھا،لیکن یہاں کسی نے بھی اس انداز سے نہیں پڑھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر قراءات قرآنیہ رسم و اجتہاد کا کرشمہ ہیں تو پھر سورۃ البقرۃ میں ’’غِشٰوَۃٌ‘‘ کو ’’غَشْوَۃٌ‘‘ پڑھنے میں اس کے سوا آخر کون سی رکاوٹ تھی کہ سند اً ایسا ثابت نہیں تھا۔یہ دلیل اس حقیقت کا واضح
Flag Counter