مقدمہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر اپنی کتاب قرآن کریم نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہیں رہنے دی۔ اور درود وسلام اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل،صحابہ رضی اللہ عنہم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ إِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:9) ’’بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ اس کتاب عزیز کی حفاظت چونکہ اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے،لہٰذا یہ ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رہے گی کہ کتب سابقہ جس سے محفوظ نہ رہ سکیں تھیں۔سابقہ کتبِ سماویہ کی حفاظت مخلوق کے سپرد تھی،وہ ان کی حفاظت نہ کر سکی،لیکن قرآن کی حفاظت خود خالق ِکائنات نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔یہی وجہ ہے کہ انسانیت کا یہ ابدی دستور بعینہ اسی حالت میں باقی ہے،جس طرح صدیوں قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی اسے چمڑے،ہڈیوں اور کجھور کے پتوں پر اور دور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور پھردورِ عثمان رضی اللہ عنہ میں اسے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ فیصلے سے دو گتوں کے درمیان کتابی شکل میں تحریر کیا گیا تھا۔آج یہ کتاب اپنے متن،قراءات،رسم،فواصل،غنہ،مد اور طریقہ ادائیگی کے ساتھ پوری طرح محفوظ ہے اور یہ وہ مقام ہے جو انسانی تاریخ میں کسی اور کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ قراءات قرآنیہ کی اصل بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم کو سات حروف میں نازل فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ کُلُّہُنَّ شَافٍ کَافٍ۔))[1] ’’قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جو سب کے سب شافی اور کافی ہیں۔‘‘ |