Maktaba Wahhabi

507 - 492
"تو اور تیرامال تیرے والد کاہے۔" اس لیے اگر والد اپنی اولاد کے مال میں سے کچھ لینا چاہے تو یہ اس کا حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سے اولاد پر کوئی ضرر نہ آئے اگر والدین فقیرہوں اور بیٹی کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہو تو بیٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین پر خرچ کرے لیکن اپنی ضروریات میں کمی نہ کرے۔ اور خاوند کے ذمہ بیوی کے خرچے کے بارے میں گزارش ہے کہ خاوند کے ذمہ واجب ہے کہ وہ بیوی کا واجب شدہ خرچہ پورا کرے اور اگر بیوی کہیں ملازم ہو تو وہ بیوی کا مال ہے اور اس کے ساتھ خاص ہے لیکن اگر خاوند یہ شرط رکھے کہ بیوی کی ملازمت اور اس کے گھر سے باہر جانے کی صورت میں وہ اس کی تنخواہ کا کچھ حصہ وصول کرے گا اور عورت اسے تسلیم کر لے تو اسےمقررہ حصہ اسے اداکرنا ہو گا۔ بیوی کو جب بھی مال ملے اسے اس کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنی یا اپنی اولاد کی یا پھر اپنے والدین کی ضروریات پوری کر سکے۔اور اگر اس لڑکی کے اور بھی بہن بھائی ہوں اور ان میں سے کوئی ایک والدین کا خرچہ برداشت کر رہا ہو تو باقی سب سے وجوب ساقط ہو جائے گا اور جو خرچہ برداشت کر رہا ہے وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔یا پھر ایک صورت یہ ہے کہ سب بہن بھائی آپس میں والدین کا خرچہ تقسیم کرلیں کہ ہر ایک کو اتنی رقم ادا کرنا ہوگی۔ رہا داماد کامسئلہ تو اس پر کوئی ضروری نہیں کہ وہ اپنی بیوی کے والدین(یعنی اپنے سسرال والوں)پر خرچہ کرتا پھرےلیکن اگروہ اپنےمال کی زکوۃ اداکرنا چاہے تو انہیں دے سکتا ہے(بشرطیکہ وہ مستحق ہوں)لیکن بیٹی اپنے والدین کو زکوۃ کا مال نہیں دے سکتی اس لیے کہ بیٹی پر والدین کو کھلانا پلانا واجب ہے لہٰذاوہ زکوۃ کے مال کے علاوہ اپنے مال سے ان کا خرچہ برداشت کرے۔(واللہ اعلم)(شیخ ابن جبرین) کوئی ملازمت نہ ہونے کی صورت میں گلوکاربھائی سے خرچہ لینا:۔ سوال۔میرا بھائی گانے بجانے کا کا م کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں اور میں بھی کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتا والد صاحب فوت ہوچکے ہیں تو کیا میرے لیے اپنے بھائی کا مال کھا نا جائز ہے؟ جواب۔جی ہاں جب تک آپ ضرورت مند ہیں اس کے مال سے کھا سکتے ہیں اور اس پر بھی واجب ہے کہ وہ
Flag Counter