Maktaba Wahhabi

491 - 492
صرف مستحب ہے جس پر اسے اجروثواب ملے گا اور اگر وہ یہ کام نہیں کرتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔اس لیے کہ نہ تو قرآن نے اور نہ حدیث نے اسے واجب کیا ہے۔البتہ اسلام نے بیوی کا مہر مقرر کیاہے جو صرف بیوی کاہی حق ہے اور اسلام نے اسے اپنے مال میں تصرف کرنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت نے خاوند کے ذمہ واجب کیاہے کہ وہ بیوی پراچھے طریقے سے خرچ کرے اور پھر شریعت نے خاوند پر اس کی دیت کی ادائیگی بھی واجب نہیں کی،اسی طرح بیوی کی جانب سے زکواۃ بھی خاوند پرواجب نہیں اور اس طرح نہ ہی حج کا خرچہ وغیرہ واجب ہے۔ شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ اگر بیوی حج کے بغیر فوت ہوجائے اور خاوند کسی کو اس کی طرف سے حج کرنے پر وکیل بنائے تو کیا خاوند کو اجروثواب حاصل ہوگا؟شیخ نے جواب دیا: افضل تو یہ ہے کہ خاوند فوت شدہ بیوی کی طرف سے خود حج کرے تاکہ وہ واجب کردہ مناسک کو صحیح طور پر ادا کرسکے۔۔۔رہا وجوب کا مسئلہ تو خاوند پر ایسا کرنا واجب نہیں۔ تو جب فوت شدہ بیوی کی طرف سے حج کی ادائیگی واجب نہیں،اسی طرح اس کی زندگی میں بھی اسے حج کرانا واجب نہیں۔یہ تو بات تھی وجوب کی،البتہ نیکی اور معاشرتی بہتری کے لحاظ سے اگر وہ یہ کام کرتا ہے تو اسے اجر وثواب حاصل ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ شیخ عبدالکریم زیدان کا کہنا ہے: بیوی کے حقوق میں خاوند کے ذمہ یہ واجب نہیں کہ وہ بیوی کے حج کا خرچہ برداشت کرے۔یااس کے خرچے میں شراکت کرے۔[1] اور علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسئلے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کاجواب تھا: خاوند پر بیوی کے حج کا خرچہ ادا کرنا واجب نہیں،لیکن اگر عورت کے پاس اتنا مال ہوجوحج کے لیے کافی ہوتو عورت پر حج واجب ہوگا اور اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں تو اس پر حج واجب نہیں۔(واللہ اعلم)(شیخ محمد المنجد) کیا فقیر باپ بیتے پر ایک دوسرے کے حج کا خرچ واجب ہے؟ سوال۔کیا والد کے ذمہ اپنے فقیر بیٹے کے فریضہ حج کا خرچہ کرنا واجب ہے اور کیا بیتے کے ذمہ فقیر باپ کے فریضہ حج کا خرچہ کرنا واجب ہے؟
Flag Counter