Maktaba Wahhabi

438 - 492
فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ﴾ "اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم!تم اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کیوں کرتے ہو۔تم اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔اللہ تعالیٰ نے تمھاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے۔"[1] یہاں اللہ تعالیٰ نے تحریم کو تسلیم قرار دیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہےکہ: ﴿إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ﴾ "عملوں کا دارو مدار صرف نیتوں پر ہے۔"[2] اور یہ قسم اٹھانے والا طلاق کی نیت تو نہیں کر رہا اس نے قسم کی نیت کی ہے یا پھر قسم کا معنی مراد لیا ہے تو اگر وقسم توڑتا ہے تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہی کافی ہے۔اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے۔[3] سعودی مستقل فتوی کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ جو شخص اپنی بیوی کو یہ کہے کہ میرے ساتھ اٹھوو گرنہ طلاق تو کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی؟تو کمیٹی نے جواب دیا: اگر آپ کی اس سے طلاق کی نیت نہیں تھی بلکہ صرف اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ابھارنا مقصود تھا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی۔علماء کے صحیح قول کے مطابق اس پر آپ کو(قسم کا)کفارہ ادا کرنا پڑے گا۔اور اگر آپ نے اس سے طلاق مراد لی ہے تو اس پر ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔[4](شیخ محمد المنجد) والد ہ کے حکم پر طلاق:۔ سوال۔سائل نے ایک عورت سے شادی کی اور پھر اس سے اس کی اولاد پیدا ہوئی۔اب اس کی والدہ اس سے بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرتی ہے حالانکہ اس میں نہ تو کوئی عیب ہے اور نہ ہی وہ نافرمان ہے بلکہ والدہ محض کسی ذاتی رنجش کی بنا پر ہی اسےطلاق دلوانا چاہتی ہے۔سائل کی بہن اور دیگر احباب نے والد ہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف طلاق کا ہی مطالبہ کرتی ہےاور اب بیٹے کو چھوڑکر اپنی بیٹی کے پاس رہنے کے لیے چلی گئی ہے تو گزارش ہے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جائے؟
Flag Counter