Maktaba Wahhabi

394 - 492
6۔ ہوسکتا ہے کہ ایک بیوی بانجھ ہو یا خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے،یاکسی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے اور خاوند اپنی شہوت پوری کرنے کا کوئی اور جائز ذریعہ تلاش کرتا رہے تو اس کے پاس دوسری شادی کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔ 7۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہو جس کا کوئی کفالت کرنے والا نہ ہو اور وہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہے اور یہ شخص خیال کرتا ہو کہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کے ساتھ گھر میں رکھے تاکہ اس کے لیے عفت وعصمت اور خرچہ دونوں جمع کردے جو اسے اکیلا چھوڑنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اعتراض:۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی اعتراض کرتا ہوا کہ یہ کہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے میں ایک گھر میں کئی ایک سو کنوں کا وجود پیدا ہوگا اور اس بنا پر سوکنوں میں دشمنی اور فخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کااثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اور خاوند پر بھی پڑے گا جو کہ ایک نقصان دہ چیز ہے اور یہ نقصان ختم کرنے کے لیے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے۔ اعتراض کا جواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی جھگڑا پیدا ہوسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں جھگڑا پیدا نہ ہو،جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے اور اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بہ نسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع زیادہ پیدا ہوتاہے اور اس جھگڑے کو ہم نقصان شمار کریں تو یہ سب کچھ بہت سے خیر کے پہلوؤں میں ڈوبا ہوا ہے اور پھر زندگی میں نہ تو صرف خیر ہی خیرہے اور نہ صرف شر ہی شر۔مطلب یہ ہے کہ مقصود وہ چیز ہے جو غالب ہوتوجس کے شر پر خیر غالب ہوگی اسے راجح قرار دیاجائے گا اور تعدد میں بھی اسی قانون کو مد نظر رکھا گیا ہے۔اور پھر ہر بیوی کا علیحدہ رہنے کا مستقل شرعی حق ہے اور خاوند کے لیےجائز نہیں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھر میں رہنے پر مجبور کرے۔ ایک اور اعتراض:۔ جب تم مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرناجائز کرتے ہوتو پھر عورت کے لیے یہ کیوں جائز نہیں یعنی عورت کو یہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے؟
Flag Counter