Maktaba Wahhabi

267 - 494
معلوم ہو اور اسے مجلس عقد میں ادا کر دیا جائے، نیز جو چیز آیندہ لینی ہو اس کا ایسا وصف بیان کیا جائے جس سے اس کی مقدار اور نوع ممتاز ہو جائے تاکہ دھوکے اور تنازعہ کا امکان نہ رہے نیز ادائیگی کی مدت معلوم ہونی چاہیے، اس کے لیے تاریخ طے کر لی جائے، صحیح بخاری میں ہے: ’’جو شخص کسی بھی چیز میں بیع سلم کرنا چاہے وہ مقررہ وزن اور مقررہ مدت ٹھہرا کر کرے۔‘‘ [1] بہرحال اس قسم کی خریدوفروخت کے لیے ضروری ہے کہ جنس معین ہو، ماپ یا وزن بھی معلوم ہو، بھاؤ بھی طے ہو اور ادائیگی کی تاریخ بھی معین ہو۔ دراصل اس قسم کی خریدوفروخت اشیا کے معدوم ہونے کی وجہ سے ناجائز تھی لیکن اقتصادی مصالح کے پیش نظر لوگوں کے لیے نرمی کرتے ہوئے اسے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، معاملہ طے کرتے وقت اس چیز کا موجود ہونا لازمی نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اس قسم کی خریدوفروخت کرتے تھے تو لوگوں نے ان سے دریافت کیا آیا اس وقت ان کے پاس کھیتی موجود ہوتی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھا کرتے تھے۔‘‘ [2] صورت مسؤلہ میں اگر آڑھتی حضرات زمیندار سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتے ہیں کہ انہیں پیشگی رقم دے کر آیندہ جنس لینے کا اہتمام کرتے ہوں اور اس کا بھاؤ، تاریخ ادائیگی جنس اور نوع نیز بھاؤ کا تعین کر لیا جائے تو جائز ہے اور اگر روپیہ دے کر آیندہ فصل کے موقع پر ان سے روپیہ ہی لینا ہے تو ایسا کرنا سود ہے جو بہت سنگین جرم ہے۔ (واﷲ اعلم) سونے اور چاندی کا نصاب سوال سونے اور چاندی کا نصاب موجودہ حساب سے کیابنتا ہے؟ جواب سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جو ساڑھے سات تولے یا پچاسی گرام کے مساوی ہے، اسی طرح چاندی کا نصاب ایک سو چالیس مثقال ہے جو ساڑھے باون تولے یا ۶۱۲ گرام بنتے ہیں، جس انسان یا عورت کی ملکیت میںنصاب کے مطابق سونا یا چاندی ہو یا زیورات ہوں، اسے چاہیے کہ اس سے زکوٰۃ ادا کرے، خواہ اس کی قیمت بنا کر کرنسی کی صورت میں ادا کرے یا سونا یا چاندی دے دے، یہ اس کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے، اس سے کم مقدار میں زکوٰۃ ضروری نہیں اگر اپنی مرضی سے دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ (واﷲ اعلم) طے شدہ منافع کے عوض رقم دینا سوال میرے ایک دوست نے مجھ سے کچھ رقم کا مطالبہ کیا ہے کہ میں آپ کو کاروبار میں تو شریک نہیں کر سکتا البتہ ہر چھ ماہ بعد کل رقم کا پانچ فیصد ادا کرتا رہوں گا، کیامیرے لیے جائز ہے کہ طے شدہ منافع کے عوض میں اسے کاروبار کے لیے کچھ رقم دوں، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں، کیا ایسا کرنا سود تونہیں؟ جواب کاروبار کی کئی ایک صورتیں رائج ہیں، ایک یہ ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کو سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا اس سرمایہ سے کاروبار کرتا ہے، پھر ایک خاص شرح کے مطابق منافع میں دونوں شریک ہوتے ہیں، کاروبار کی اس شکل کومضاربت کہتے
Flag Counter