Maktaba Wahhabi

33 - 469
پیش لفظ الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین محمدٍ وآلہ و أصحابہ و أتباعہ أجمعین. انسان کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے بقدر ضرورت دین کا فہم حاصل کرنا ضر وری ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی فہم و بصیرت کو خیر و بھلائی کی علامت قرار دیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فہم عطا کر دیتاہے۔‘‘ (صحیح بخاری، العلم:۷۱) دین میں فہم و بصیرت کا دوسرا نام علم نافع ہے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے۔ ’’اے نبی دعا کیجئے کہ میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا فرما۔‘‘ (۲۰/طہ:۱۱۴) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ آیت کریمہ فضیلت علم پر وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کے علاوہ کوئی اور چیز زیادہ سے زیادہ مانگنے کا حکم نہیں دیا اور اس سے مراد شریعت کا علم ہے۔ (فتح الباری،ص:۱۸۷،ج۱) ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی عمل کرنے سے پہلے اس کے متعلق فہم و بصیرت حاصل کرے تاکہ اس کا عمل بار آور اور نتیجہ خیز ثابت ہو، اس کے ثمر آور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو، علم و عمل کے اعتبار سے لوگوں کی تین اقسام ہیں: 1۔ وہ لوگ جو علم نافع اور عمل صالح سے سرفراز ہوئے، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ قرار دیا ہے۔ 2۔ وہ لوگ جنہوں نے علم سیکھا، لیکن اس کے مطابق عمل نہ کیا، یہ لوگ یہود تھے جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا۔ 3۔ وہ لوگ جو علم کے بغیر عمل کرتے تھے، یہ لوگ نصاریٰ تھے جو راہ راست سے بھٹک کر گمراہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں ان تینوں قسم کے لوگوں کا بایں الفاظ ذکر فرمایا: ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا جن پر تیرا غضب نہیں ہو ااور نہ وہ گمراہ ہوئے۔‘‘ (۱/فاتحہ:۶،۷) اگر انسان کو کسی چیز کا علم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اہل علم سے اس کے متعلق سوال کرے تاکہ اس کا عمل علیٰ وجہ البصیرت ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمہیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اہل ذکر سے دریافت کر لیا کرو۔‘‘ (۱۶/النحل:۴۳) اس قرآنی ہدایت کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر دینی مسئلہ میں کوئی مشکل پیش آتی تو سرخیل اہل ذکر جناب رسول
Flag Counter