Maktaba Wahhabi

51 - 5761
سنن نسائی ذِكْرُ الْفِطْرَةِ کتاب: امور فطرت کا بیان استنجا کرنے کے بعد ہاتھ زمین پر ملنا 51
مرفوع متصل قولی حسن
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى الْخَلَاءَ فَقَضَى الْحَاجَةَ ثُمَّ قَالَ يَا جَرِيرُ هَاتِ طَهُورًا فَأَتَيْتُهُ بِالْمَاءِ فَاسْتَنْجَى بِالْمَاءِ وَقَالَ بِيَدِهِ فَدَلَكَ بِهَا الْأَرْضَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ بیت الخلا میں گئے، قضائے حاجت کی، پھر آپ نے فرماای: ’’اے جریر! پانی لاؤ۔‘‘ میں پانی لایا۔ آپ نے اس سے استنجا کیا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر ملا۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث شریک کی روایت سے زیادہ درست ہے۔ واللہ أعلم۔
تشریح : (۱) شریک کی روایت سے مراد اوپر والی روایت (۵۰) ہے جسے شریک نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ظاہر کیا ہے جبکہ یہ روایت ابان سے ہے۔ ابان نے اس روایت کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کیا ہے جبکہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت جریر سے ہونی چاہیے، البتہ اس صورت میں یہ روایت منقطع ہوگی کیونکہ محدثین کے فیصلے کے مطابق ابان کے استاذ ابراہیم بن جریر کا اپنے والد حضرت جریر رضی اللہ عنہ سےسماع ثابت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس روایت کو زیادہ صحیح کہنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حضرت جریر کا ذکر درست ہے۔ بعض محدثین نے دونوں روایات کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ روایت حضرت جریر سے بھی منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےبھی کیونکہ شریک حفظ و ضبط میں ابان سے کم نہیں بلکہ امام مسلم نے شریک کی روایات صحیح مسلم میں بیان کی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’قال أبو عبدالرحمن‘‘ یہ مقولہ خود امام نسائی رحمہ اللہ کا بھی ہوسکتا ہے، یعنی اپنے آپ کو کنیت کے ساتھ غائبانہ انداز میں ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگرد شیخ ابن سنی کا مقولہ ہو۔ پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔
(۱) شریک کی روایت سے مراد اوپر والی روایت (۵۰) ہے جسے شریک نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ظاہر کیا ہے جبکہ یہ روایت ابان سے ہے۔ ابان نے اس روایت کو حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کیا ہے جبکہ امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت جریر سے ہونی چاہیے، البتہ اس صورت میں یہ روایت منقطع ہوگی کیونکہ محدثین کے فیصلے کے مطابق ابان کے استاذ ابراہیم بن جریر کا اپنے والد حضرت جریر رضی اللہ عنہ سےسماع ثابت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس روایت کو زیادہ صحیح کہنے سے یہ مقصود نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں بجائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حضرت جریر کا ذکر درست ہے۔ بعض محدثین نے دونوں روایات کو صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ روایت حضرت جریر سے بھی منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےبھی کیونکہ شریک حفظ و ضبط میں ابان سے کم نہیں بلکہ امام مسلم نے شریک کی روایات صحیح مسلم میں بیان کی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۲) ’’قال أبو عبدالرحمن‘‘ یہ مقولہ خود امام نسائی رحمہ اللہ کا بھی ہوسکتا ہے، یعنی اپنے آپ کو کنیت کے ساتھ غائبانہ انداز میں ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شاگرد شیخ ابن سنی کا مقولہ ہو۔ پہلی بات زیادہ قرین قیاس ہے۔ واللہ أعلم۔
Flag Counter