Maktaba Wahhabi

4 - 5761
سنن نسائی كِتَابُ الطَّهَارَةِ کتاب: طہارت سے متعلق احکام و مسائل کیا حاکم اپنے ماتحتوں کے سامنے مسواک کر سکتاہے؟ 4
مرفوع متصل قولی صحيح
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ فَقَالَ إِنَّا لَا أَوْ لَنْ نَسْتَعِينَ عَلَى الْعَمَلِ مَنْ أَرَادَهُ وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَرْدَفَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، جب کہ میرے ساتھ دو اشعری اور بھی تھے۔ ایک میرے دائیں تھا اور دوسرا میرے بائیں۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرما رہے تھے۔ ان دونوں نے آپ سے کوئی عہدہ مانگا۔ میں نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر بھیجا! انھوں نے مجھے اپنے دلی ارادے سے مطلع نہیں کیا اور نہ مجھے اندازہ ہی تھا کہ یہ کوئی عہدہ مانگیں گے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی مسواک آپ کے ہونٹ مبارک کے نیچے ہے اور ہونٹ سکڑا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تحقیق ہم سرکاری منصب پر کسی ایسے شخص کا تعاون حاصل نہیں کرتے (یا ہرگز نہیں کریں گے) جو اس کا طلب گار ہو، لیکن صاے (ابو موسیٰ!)تو (عہدے پر)جا۔‘‘ پھر آپ نے انھیں (ابو موسیٰ کو حاکم بنا کر) یمن بھیج دیا۔ پھر آپ نے ان کے پیچھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھی بھیج دیا۔
(۱) مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ (صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: ۲۸۴۶) گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔ (۲) کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے اناف نہیں کرسکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: ۶۶۲۲، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: ۱۶۵۲) لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کرسکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سےنے کہا تھا: (اِجَعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ) (یوسف ۵۵:۱۲) ’’مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔‘‘ اسی طرح حضرت عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۵۳۱) (۳) مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ [قَلَصَتْ] اس پر دلالت کرتا ہے۔
Flag Counter