اور مستوجب ثواب ہو سکتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ کسی شخص کو متعین کر کے عذاب یا ثواب کو مستحق نہیں ٹھہرتے سوائے یہ کہ اس پر الگ سے کوئی دلیل ہو۔
٭ لعنت، وعید،(عذاب کے ڈراوے)کے باب میں سے ہے اس لئے کہ اس کی بناء پر عام حکم تو لگ سکتا ہے مگر جہاں تک کسی شخص کو متعین کر کے اس پر اس کے اطلاق کا تعلق ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اس شخص سے توبہ، صحیحہ، یا حسنات(نیکیاں)جو گناہوں کو مٹاتی ہیں، یا مصائب و تکالیف جو گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں، یا ایسی شفاعت جو اللہ کے ہاں قابل قبول ہو یا اس قسم کے دیگر اسباب کی بناء پر یہ لعنت یا وعید زائل ہو سکتی ہے اور گناہ سرزد کرنے والے کی سزا معاف ہو سکتی ہے۔ یہ اس شخص کے مسئلے میں ہے جس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو۔۔ بنا بریں کسی شخص کو متعین کر کے نہ تو جنت کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے سوائے یہ کہ اس کی الگ سے کوئی دلیل ہو، اور نہ کسی کو متعین کر کے دوزخ کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے سوائے یہ کہ اس پر الگ سے کوئی دلیل ہو۔ مزید برآں کسی کے بارے میں اس ظن کی بناء پر ایسا کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کسی عموم کے دائرے میں شامل ہے کیونکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہر دو عموم میں شامل ہو جس کی وجہ سے ثواب کا بھی حقدار ہو اور عذاب کا بھی۔(ج 36 ص 66-68، 282)
٭ اہل سنت و الجماعت، اور ان کے اتباع کرنے والے تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک بڑی خلقت ایسی ہو گی جن میں مستحق ثواب اور مستحق عذاب کے ہر دو وصف مجتمع ہوں گے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں مروی ہے۔ مزید برآں اہل سنت و الجماعت ہر اس شخص پر جو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے لازمی طور پر مستحق عذاب ہونے کا
|