مقدمہ الحمد للّٰه والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللّٰه پیش نظر کتاب ہم نے ’’یہودیت ‘‘ اور ’’شیعیت‘‘ کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے،ثانی الذکر کو یہودیت کا چربہ اور اس کی ایک نقاب بتایا ہے۔اور بطور ثبوت دلائل قرآن مجید کی کچھ آیتیں بھی پیش کی ہیں۔اس سلسلے میں ہم یہ وضاحت کردینا چاہتے ہیں کہ ’’اہل تشیع ‘‘کو ’’یہود ‘‘کی ایک شاخ ماننے اور انہیں ایک ہی سکے کے دورخ تسلیم کرنے میں ناچیز مولف منفرد نہیں بلکہ صدیوں قبل اندلس کے مشہور عالم دین ’’ابن عبدربہ‘‘اپنی کتاب ’’العقد الفرید‘‘میں اس حقیقت کی تصدیق کرچکے ہیں،انہوں نے بھی یہودیوں اور شیعوں کے درمیان عقائد کی مماثلت اور مشابہت کی نشان دہی کی تھی،موجودہ دور میں بھی ایک محقق اور عالم دین ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی نے اپنی کتاب ’’الشیعۃ فی المیزان‘‘میں یہود وروافض کے درمیان جو فکری مشابہت بیان کی ہے اس کا خلاصہ ہم سطور ذیل میں پیش کررہے ہیں: (۱) یہودی اپنے آپ کو اﷲ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہودیوں کے علاوہ تمام انسان ’’گوئم‘‘(Goium)یعنی حیوان ہیں جو یہودیوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں،اور ان کے مال ودولت کی لوٹ مار جائز ہے۔ اہل تشیع بھی بالکل یہی دعویٰ کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق اہل بیت سے ہے اس لئے ہم سب سے افضل اور اﷲکے محبوب بندے ہے،وہ بھی اپنے علاوہ تما م انسانوں کو’’ ناصبی‘‘ کہتے ہیں یعنی ان کے عقیدے کے دشمن!جن کے مال ودولت کو لوٹنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کار ہے۔ (۲) یہود نسلی برتری وتعصب کے علم بردار ہیں وہ عربوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شیعوں کابھی عربوں کے بارے میں یہی نظریہ اور خیال ہے۔جدید ایران کے ایک مصنف’’مہدی بازرگان‘‘اسی رافضی نظریہ کی یوں وضاحت کرتا ہے:’’عربوں کی طبیعت میں سختی اور خشونت ہے۔ان کا مزاج جارحانہ اور سوچ بڑی پست ہے ‘‘ (الحد الفاصل بین الدین والسیاسہ،مہدی بازرگان ص:۶۸( |