بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر سلمان تاثیر کے قتل سے پیدا ہونیوالے سوالات 4 جنوری 2011ء کی شام 5 بجے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا۔قتل کے فوراً بعد گرفتار ہونے والے ممتاز قادری کا موقف یہ تھا کہ اس نے یہ قتل خالصتاً ذاتی نیت اور اِرادے سے کیا ہے، اور سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ اس نے ’قانونِ امتناع توہین رسالت‘ کو ’کالا قانون‘ کہا اور توہین رسالت کے مجرموں کی تائید اور پشت پناہی کی۔ نئے عیسوی سال کے آغاز پر اس اہم ترین واقعہ نے دنیا بھر کو پاکستان کی طرف متوجہ کردیا اور اندرون وبیرونِ ممالک بڑی تکرار سے کہا جانے لگا کہ پاکستانی معاشرہ انتہاپسندی کی طرف مائل ہے۔ اس معاشرے سے برداشت اور رواداری ختم ہوتی جارہی ہے۔ کیا محض کسی ایک مظلوم عورت کی تائید کردینا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسا کرنے والے کو جینے کے حق سے محروم کردیا جائے؟ اگر کوئی شخص کسی قانون کے بارے میں مخالفانہ رائے رکھتا او راس پر شدید تنقید کرتا ہے تو دلیل واستدلال سے اس کا جواب دینے کی بجائے بندوق اورگولی کی زبان سے اس کا خاتمہ کیوں کردیا جاتا ہے؟ سلمان تاثیرکے اس سنگین قتل نے ملک بھر میں ایک نظریاتی جنگ کو شروع کردیا اور ٹی وی واخبارات پر موجود جدت پسند طبقہ نے بہانے بہانے سے اس قتل کے خلاف طرح طرح کے سوالات پیدا کئے۔ روا داری کی ہر دم دوسروں کو تلقین کرنے والا یہ طبقہ اس موقعہ پر شدید عدم برداشت کا مظاہرہ کرتا نظر آیا، اور اپنی تحریروں میں بالخصوص انہوں نے جو زبان استعمال کی اور جیسے الزامات دہرائے، اس سے ان کی عدم برداشت کا پول کھل گیا۔ بعض ایسے بھی تھے جو اس معاملے کی سنگینی محسوس کرکے عذرآرائیاں کرنے لگے جبکہ انگریزی میڈیا کے بعض انتہا پسندوں نے عبرت نہ پکڑتے ہوئے توہین رسالت کے قانون کو تکرار سے سیاہ قانون بلکہ ’ڈریکولین لاء‘ کہنے کی جسارتیں بھی کیں ۔ پاکستان میں یہ ایک محدود مگر متحرک وبااثر اقلیت کا رد عمل تھا جو اِن سطور میں بیان کیا |