بسم اللہ الرحمن الرحیم فکر ونظر قومی خود مختاری کے لئے عوامی تحریک! اربابِ علم و دانش اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کا قبلہ روز اوّل سے ہی درست نہیں رہا اور کم وبیش ہمارے تمام حکمران کسی نہ کسی درجے میں امریکہ کی کاسہ لیسی پر مجبور رہے ہیں لیکن سابق صدر پرویز مشرف نے جس انداز میں قومی خود مختاری کا سودا کیا، اس کی مثال ہماری ملکی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ ۲۰۰۸ء میں پرویز مشرف کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے اور نئی جمہوری حکومت قائم ہو جانے پر یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقاتِ کار میں توازن اور اعتدال پیدا ہو جائے گا لیکن ہمارے نو منتخب حکمرانوں نے اپنے پیش رو کی ہی پالیسیاں جاری رکھیں بلکہ امریکہ کی طرف جھکائو میں اس سے بھی کہیں زیادہ آگے نکل گئے۔ دوسری طرف بش کے اقتدار کے خاتمے کے بعد امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاہ فام امریکی باراک حسین اوبامہ امریکی صدر منتخب ہوئے تو اسے مارٹن لوتھرکنگ کے خوابوں کی تعبیر قرار دیا گیا۔ باراک حسین اوبامہ کی فتح کو بش کی پالیسیوں کے خلاف امریکی عوام کے ردّ عمل کا مظہر بھی قرار دیا گیا۔ امریکہ میں اقتدار کی اس تبدیلی سے بھی یہ توقع کی جانے لگی کہ اب دنیا میں امن وامان کی صورتِ حال بہتر ہو گی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ باراک حسین اوبامہ کا تعلق ڈیمو کریٹس سے تھا جو ری پبلکن کے مقابلے میں بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے سفارت کاری کو طاقت کے استعمال پر ترجیح دیتے ہیں لیکن ان سے وابستہ توقعات بھی دم توڑ گئیں اور عملاً وہ بھی اپنے پیش رو سے دو چار ہاتھ آگے نکل گیا۔ آج وہ بھی بش کے اس عسکری فلسفے پر بش سے بڑھ کر کار بند نظر آتا ہے جس کی بنیادیں یہ تھیں : دہشت گردی کے محرکات سے صرفِ نظر کر کے دہشت گردوں کا قلع قمع کیا جائے۔ دہشت گردی کے موہوم خطرات سے نمٹنے کیلئے مشکوک افراد کوبھی نیست ونابود کر دیا جائے۔ چند مشکوک دہشت گردوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہزاروں معصوم اور نہتے شہری |