’’علم رکھنے والے ہی اللہ کی خشیت اختیار کرتے ہیں ۔ ‘‘ ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی زبان میں علم کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اللہ پرایمان لائے اور اللہ سے ہی ہر خیر کی اُمید رکھے۔ گویا جس علم سے اللہ کی خشیت حاصل نہ ہو، وہ علم کا حقیقی مصداق نہیں ہے۔ اسی سے قرآن وسنت کے مقابلے میں جدید علوم کی حیثیت اورحقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ غور طلب امریہ ہے کہ قرآن ایک چیز کو صراحت کے ساتھ علم قرار دیتا ہے لیکن ہمارے حکمران قرآن وسنت کی تعلیمات سے باخبر علما کو بے علم ہونے کا طعنہ دے کر صرف اُنہیں ہی علم والا قراردیتے ہیں جنہیں یورپ سے مستند اور منظور شدہ تعلیمی سندات حاصل ہوں لیکن یاد رکھئے کہ اللہ کے ہاں ایسے علم کی کوئی قدر وقیمت نہیں ! تعلیم یافتہ ہونے کا یہ فیصلہ تو مغرب نواز ’مسلم‘ حکمرانوں اور اربابِ اختیار کا ہے لیکن قرآن کا نظریۂ تعلیم اس کے برعکس ہمیں محض دنیاوی مفادات کے تابع اور اللہ کی یاد سے خالی علم سے کنارہ کش ہونے کا حکم دیتا ہے بلکہ دینی علم سے گریز کرنے پر روزِ محشر کی وعید کا بھی اضافہ کرتا ہے، جیسا کہ پیچھے سورۃ النجم کی آیات گزر چکی ہیں ۔ یہ ہے تعلیم وتعلّم کے میدان میں مغرب کا فکری جبر جسے ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے لفظ بہ لفظ اختیار کررکھا ہے۔افسوس کہ مغرب کی یہ ذہنی غلامی مسلمانوں کو ان کی اساس سے کاٹنا اورحقیقی اہل علم کو ’لاعلمی‘ کا طعنہ دے کرانسانوں کی نمائندگی سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ حدیث ِنبوی کا نظریۂ تعلیم بھی ملاحظہ ہو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مقصد ِبعثت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ((إنما بُعِثتُ مُعَلِّمًا)) (سنن ابن ماجہ: ۲۹۹) [1] ’’مجھے علم سکھانے والا یعنی اُستاد بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ غور طلب امر یہ ہے کہ آپ نے اپنی اُمت کو کس چیز کی تعلیم دی؟ زندگی گزارنے کا طریقہ،[2] انسانوں سے میل جول کے آداب، اللہ اور بندوں کے حقوق و فرائض۔ یہ وہ تعلیم تھی |