Maktaba Wahhabi

2 - 79
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر و نظر ’تعلیم‘ کے نام پر حکومتی جبرواستحصال وطن عزیز حسب ِسابق سنگین بحرانوں سے دوچار ہے، جہاں ایک طرف سیاست اور الیکشن کا شور وغوغا ہے، وہاں ہلاکت وبربادی اور بدنظمی و لاقانونیت بھی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ دہشت گردی نے معصوم عوام سے آگے بڑھ کر نامور سیاستدانوں کو بھی اپنے گھیرے میں لے لیا ہے اور پاکستان کی سیاست خون آشام ہوچلی ہے اور اس میں ذلت ورسوائی کے ساتھ ساتھ اَب جان ہارنے کی رِیت بھی پختہ ہو رہی ہے۔ یوں تو اس وقت کئی موضوعات اہل نظر کی توجہ کے متقاضی ہیں لیکن ایک دینی جریدہ ہونے کے ناطے ہم ایک ایسے مسئلہ کی طرف اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو اِن سنگین مسائل کی تہ میں دَب کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دین دار طبقے کے اثر ورسوخ کوکنٹرول کرنے کے لئے عرصۂ دراز سے دینی اسناد کی منظور ی کا مسئلہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ماضی میں بھی دینی اسناد کی منظوری کو متحدہ مجلس عمل کے خلاف ایک اہم سیاسی ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا اور جب بھی ایم ایم اے نے کسی مرحلہ پر اپنا سیاسی دباؤ استعمال کرنے کی کوشش کی تو عدالتی فیصلہ کی یہ تلوار اُنہیں اپنے خلاف لٹکتی نظر آئی…! موجودہ الیکشن میں جہاں بہت سے دیگر واقعات غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں ، وہاں الیکشن کمیشن کا ایک حالیہ فیصلہ بھی انتہائی دو ررَس اثرات کا حامل ہے جس میں دینی اسناد کے بارے میں ایک واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار کرلیا گیا ہے۔ ذیل میں الیکشن ٹربیونل کے دینی اسناد کے حوالے سے تازہ ترین فیصلہ کے تذکرہ کے بعد اس پر ہمارا تبصرہ اور موقف نذرِ قارئین ہے: ۱۳ /دسمبر۲۰۰۷ء بروز جمعرات، روزنامہ ’پاکستان‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ’’لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹربیونل کے دو جج صاحبان جسٹس محمد مزمل خاں اور جسٹس سردار محمد
Flag Counter