بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر مسلمانوں پرآزمائشیں کیا صرف ’دعا‘سے ٹل سکتی ہیں ؟ [عروج وزوال کے بارے میں قانونِ الٰہی اور اس کے تقاضے] ۱۱/ ستمبر کو نیویارک کے ٹون ٹاورز کی تباہی کو جواز بنا کر امریکہ نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے عالم اسلام پر جارحیت کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، بظاہر ابھی اس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔ بہت سے ایسے اہداف جن کی تکمیل کے لئے امریکہ کو عرصہ سے بہانہ کی تلاش تھی،اب عالمی ہمدردی کے زیر سایہ بڑے دھڑلے اور ڈھٹائی سے انہیں پورا کرنے کا موقع اُسے میسر آچکا ہے۔ اس دہشت گردی کے بہانے یہود و ہنود اور عیسائیت و لادینیت کو ایک مشترکہ دشمن ’اسلام‘ کو ہدف بنانے کا بھرپور موقع ملا ہے۔ یوں تو عالم اسلام پر ابتلا کا یہ دوربرسوں کی بجائے چند صدیوں پر محیط ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم ممالک کو استعماری طاقتوں نے حصے بخرے کرکے بانٹ رکھا تھا اور آزاد اسلامی ریاستیں خال خال ہی موجود تھیں تو اکیسویں صدی کے آغاز میں بظاہر تو مسلم ممالک کی ایک بڑی تعداد نہ صرف آزاد ہے، بلکہ عالمی آبادی اور ممالک کی تعداد کے لحاظ سے بھی مسلمان دنیا بھر کا چوتھائی حصہ ہیں ، لیکن اس ظاہری آزادی کے باوجود ذہنوں کی غلامی اور فکری محکومی پچھلی صدی سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ۔ پہلے غیرملکی ان ممالک پر بذاتِ خود قابض تھے ، اب ان کی حکومت بالواسطہ ہے۔ استعمار نے ان ممالک کو آزادی ہی اس قیمت پردی ہے کہ وہاں اس کی فکری اولاد اپنا تسلط قائم رکھ سکے۔ ان ممالک پر اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لئے استعمار نہ صرف اپنی فکری اولاد کی مسلسل سرپرستی کرتا ہے بلکہ ان کی اور مسلمانوں کے مقتدر طبقہ کی تعلیم وتربیت کا بارِگراں بھی اسی نے اُٹھا رکھا ہے۔جس ملک میں استعمار کی گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے، وہاں ہرقیمت پر مداخلت اور جارحیت کے ذریعے اپنے مہروں کو عنانِ اقتدار پر قابض کیا |